کسی طالب علم کا تعلیمی ادارے میں داخلے کا ایک بنیادی مقصد والدین کے لئے اپنے بچے کی اخلاقی تربیت بھی ہوتا ہے لیکن فی زمانہ ایک چیز نوٹ کیا جا سکتا ہے کہ طلباء اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں۔ معاشرتی اقدار کو پس پشت ڈال
کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
طلباء کے اندر صبر اور عدم برداشت کی شدید کمی ہوتی جا رہی ہے۔
یونیورسٹی کے نظمی کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران معلوم ہوا کہ دو طلباء فقط اس لیے لڑ بڑے ک انہوں نے واٹس ایپ کے ایک گروپ میں ایک دوسرے کے چیٹ پر ہنسی یا مذاق والے ایموجی استعمال کیے۔یہ لڑائی اس حد تک ہوئی کہ ایک طالب علم کے کپڑے پھاڑ دیئے
۔
ایک اور موقع پر دو طلباء اس بات پر لڑ پڑے کہ ایک طالب علم نے دوسرے کو اونچا بولنے سے منع کیا۔
ایسا کیوں ہورہا ہے؟؟ اس کی بنیادی وجہ طلباء کے اندر تربیت کی کمی اور عدم برداشت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذمہ دار کون ہے۔ والدین، اساتذہ یا طلباء؟
میرے خیال میں سب شریک ہیں۔
والدین کبھی زحمت نہیں کرتے کہ وہ اپنے بچوں کا پروگریس رپورٹ لے اور پھر بچوں کو پروگریس کے مطابق ٹریٹ کریں
۔
اکثر طلباء ان کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں جو ان کے کرنے کے نہیں ہوتے اور اس طرح وہ سکھنے کے عمل سے دور ہو جاتے ہیں۔ان کے اندر برداشت کا مادہ پروان نہیں چڑھ پاتا۔ میں روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ کرتا ہوں کہ اکثر طلباء پڑھنے اور سکھنے کی نیت سے آتے ہی نہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں آپ کو کاپی، رجسٹر یا پنسل نظر نہیں آئینگے۔
ہاسٹل، میس، بس اور کمرے میں اکثر طلباء چھوٹی چھوٹی باتوں پر دست و گریبان ہوتے سنو گےکہ اس نے مجھے جگہ نہیں دی، اس نے میرے پیچھے باتیں کی۔ یہاں تک عدم برداشت کا مادہ پروان چڑھا کہ میں نے دیکھا دو طلباء اس لیے
لڑ رہے تھے کہ ایک طالب علم دوسرے کے پیچھے جاتے ہوئے کھانس رہا تھا۔
اب عدم برداشت کے اس کلچر کا خاتمہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
کہتے ہیں کہ عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ شعور کی کمی ہے۔ شعور کی بیداری میں اساتذہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ کلاس ٹیچر کو چاہیے کہ وہ طلباء کی رہنمائی کریں، اخلاقی تربیت کریں اور کلاس لیکچر کے اختتام پر صبر اور برداشت کا فلسفہ سکھائے۔ ان کو سکھائے کہ ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔
سوشل میڈیا (واٹس ایپ اور فیس بک ) پر کسی کلاس فیلو کی شخصیت، ذات،علاقہ اور زبان کی بےعزتی نہ کریں۔
غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی غیر شعوری کی علامت ہے اور عدم برداشت کو جنم دیتی ہے۔
اپنے رویہ کے استعمال کے وقت اپنی تربیت، والدین کی عزت اور مستقبل کے بارے میں لازمی سوچے۔
زبان کو ترقی کا زینہ بناے نہ کا بربادی کا وسیلہ۔
گپ شپ اور خوش گپیاں اپنے دائرہ اختیار میں کیا کریں
۔
اساتذہ اس عمر میں طلباء کے ساتھ اکھاڑے میں اترنے کی بجائے اپنے تجربے اور قلم کی زور سے طلباء کی تربیت کریں اور مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تیار کریں۔