کسی بھی معاشرے کے رسم و رواج، ادب اداب، لباس، غذا، رہائش اور زبان اس معاشرے کی شناخت ہوتی ہے اور انسان جس معاشرے میں کا حصہ ہوتا ہے اسی ماحول میں وہ رچ بس جاتا ہے
ہماری دیہاتی ثقافت مضبوط معاشرتی بنیادوں پر استوار تھی مگر اب نئی نسل اس سے دور ہوتی جا رہی ہے خوشی کے موقع پر جسطرح محلے دار عزیر و اقارب اور دوست خوشیاں مناتے تھے
اس دور کی آج کی شادی میں کہیں جھلک نظر نہیں اتی اب بیٹی یا بیٹے کی شادی کرنے سے قبل رشتوں میں پڑی دراڑوں کو مٹانے کیلیے شادی میں شرکت کیلیے انکو راضی کیا جاتا ہے
گویا وہ اپنے عزیزوں کی شادی میں شرکت کو بارگراں سمجھتے ہیں ڈھول باجے کا رواج مدھم پڑ گیا ہے شادی کے دن گھروں میں پکوائی کا رواج بھی اب تقریباً ختم ہو چکا ہے
یہی وہ مواقع تھے جہاں ایک دوسرے اگھٹے مل کر بیٹھتے اور ایک دوسرے کے دست و پا بن جایا کرتے تھے اب شادی بیاہ کے تمام فنکشن گھروں کی بجائے بہترین ہوٹلوں میں سر انجام پاتے ہیں پہلے غمی کے موقع پر ترپال یا چٹائی بچھا کر زمین پر بیٹھتے تھے اب انکی جگہ کرسی سے لے لی ہے
چارپائی کبھی دیہاتی زندگی میں غمی خوشی کی شان ہوا کرتی تھی شادی ہو یا فوتگی گھر چارپائیوں سے بھرا ہوتا تھا اگر دیہات یا اڑوس پڑوس میں خوشی یا فوتگی کا موقع ہو تو دیہات کے ہر گھر سے کم از کم دو چارپائیاں نکلتیں، ایک شادی یا میت والے گھر کو بھیجی جاتی اور دوسری مرد حضرات کے بیٹھنے کے لیے مختص ہوتی اس وقت یہی رواج تھا
کہ شادی یا فوتگی کے لیے باہر سے آنے والے لوگ چارپائیوں کی گنتی سے ہی اپنے متعلقہ عزیز دوست، رشتہ داروں اور برادری کا اندازہ لگا لیتے مگر اب خوشی کا موقعہ ہو چاہیے غمی چارپائیوں کی جگہ کرائے کی کرسیوں نے لے لی ہیگاؤں کے وہ گھر جو چارپائیوں سے بھرے ہوتے اب وہاں کرسیوں کے جھرمٹ میں بمشکل دو تین چارپائیاں ضرور نظر آ جاتی ہیں اس دور میں بزرگ خود چارپائی اپنے ہاتھ سے بناتے تھے
لیکن اب نئی نسل اس فن سے عاری ہے اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں یا تو گاؤں میں چارپائیاں ختم ہو گئیں یا پھر چارپائی بنانے والے بزرگ دنیا سے کوچ کر گئے ہیں گاؤں کے دلکش نظارے بزرگوں اور دیہی خواتین کا دیہاتی کلچر ہی ہماری اصل پہچان تھی
آج کے اور پرانے لوگوں کی صحت اور عمر کے مابین میں کافی فرق واضح نظر آتا ہے،اج ہر تیسرا شخص بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری میں مبتلا ہے مگر اس دور کے سو سالہ بزرگ میں بھی بلڈ پریشر اور شوگر کی بیماری کا نام ونشان نہ تھا کیونکہ پیدل چلنا انکا مشغلہ محنت مشقت کے بعد سادہ اور خالص غذا کا استعمال انکی صحت کا راز تھا دودھ مکھن گھی مکئی
اور تندور کی روٹی کسی سرسوں کا ساگ انکی من پسند غذائیں تھیں اس دور کی عورتیں جب ساگ پکاتی تو خوشبو اڑوس پڑوس تک پھیل جاتی انہایت معزرت کیساتھ کہ اب شاید ہی کسی عورت کو اس طرح کا ذائقہ دار ساگ پکانے کا فن آتا ہو جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ہمیں آج سب کچھ میسر ہے
ہر ایک چیز اک بٹن دبانے سے حاصل ہو جاتی ہے تو وہاں ہی ہم سے بہت کچھ چھین بھی لیا ہے ہمارا رسہن سہن ہمارا اٹھنا بیٹھنا رشتے دار دکھ درد اپنائیت ہم اک دوسرے سے بہت دور ہوتے گئے اور سچ تو یہ ہے کے اب ٹائم ہی نہی ہے
کسی کے پاس دکھ سکھ بانٹنے کے لیے کچھ وقت نکالا جائے کسی کے درد کو کوئی اپنا سمجھنے کے لیے تیار ہی نہی ہے
لیکن کاش وہ پرانا دور پھر میسر ہو جب 4 جی تو نہی تھا پر سب اپنے تھے گاوں گلی محلے میں سب اک دوسرے کو جانتے پہچانتے تھے اک دوسرے کو گلے لگانے والے سچی محبت کرنے والے لوگ کاش وہ وقت اور وہ سب لوگ پھر لوٹ آئیں ایسا ممکن تو نہیں مگر ہم اس جدید معاشرے کے لوگ ان بزرگوں کی روایات رسم ورواج کو دوبارہ زندہ کر کے اس دور کی معاشرت کو ایک بار پھر جدید معاشرے کے مقابلے میں متعارف کرانے کی سہی ضرور کر سکتے ہیں