102

گوجرخان‘گریجویٹ کالج برائے خواتین بہترین ادارہ

گورنمنٹ گرلز کالج برائے خواتین گوجرخان 1979ء میں قائم ہوا اور تعلیم و تدریس کا آغاز کرائے کی عمارت میں کیا گیا، بعد ازاں ہاؤسنگ سکیم نمبر 1 گوجرخان میں تقریباً 45 کنال پر محیط سرکاری اراضی پر کالج کی تعمیر کی گئی، 1984 میں گرلز کالج موجودہ عمارت میں منتقل ہوا، 1987ء میں اس کالج کو ڈگری کا درجہ دیا گیا، 1987 سے 2023ء تک یہ کالج بطور ڈگری کالج اپنا کام کرتا رہا

تعلیمات حسینؑ سے اس قدر دور کیوں؟

اور اب موجودہ سال یعنی 2024ئئ میں اس کالج کو گریجویٹ Graduate کا درجہ دیا گیا اور ساتھ ہی بی ایس کی ڈگری کیلئے این او سی بھی دیا گیاکالج کی پرنسپل جمیلہ ایوب گوجرخان کی سماجی ادبی تعلیمی شخصیت گوہر ایوب مرحوم کی صاحبزادی ہیں اور شعبہ تعلیم میں وسیع تجربہ رکھتی ہیں، چار سال قبل انہیں یہاں بطور پرنسپل تعینات کیا گیا اور اس کے بعد انہوں نے دن رات محنت کر کے اپنے کالج کا نام پورے پنجاب میں روشن کیا اور اس میں انہیں اپنے پورے سٹاف کی مکمل معاونت حاصل ہے

اور اس بات کا وہ گاہے بگاہے برملا اظہار کرتی ہیں کہ میرے کالج کا تمام سٹاف میرے ساتھ مکمل تعاون کرتاہے جس کی وجہ سے اس کالج کی عزت میں روز بروز اضافہ ہورہاہے گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین گوجرخان کی پرنسپل جمیلہ ایوب نے دوران انٹرویو بتایا کہ شروع دن سے میرا مشن رہاہے کہ کالج میں تعلیم کے نظام کو بہتر سے بہتر کر سکوں، غیر نصابی اور نصابی سرگرمیوں پہ یکساں فوکس رکھا ہواہے، کالج میں بچیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہوں، کالج کی صفائی اور سیکورٹی کے معاملے پر کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہوں

کالج میں اساتذہ کی کمی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے اس تاثر کو یکسر مسترد کر دیا کہ کالج میں اساتذہ کی کوئی کمی نہیں ہے، کالج میں اساتذہ کی کل 31 آسامیاں ہیں جن میں لیکچرار کی آسامیوں پر اس وقت 19لیکچرار طالبات کو زیورتعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں، اسسٹنٹ پروفیسرز کی تعداد 7،ایسوسی ایٹ پروفیسر01 اور 01 لائبریرین موجود ہے

جو خدمات سرانجام دے رہی ہیں،یعنی کل 31 آسامیوں میں سے 28 آسامیوں پر سٹاف تعینات ہے اور یہاں ہزاروں بچیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ پرنسپل جمیلہ ایوب نے بتایا کہ جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق کالج میں طالبات کیلئے 9 لیبارٹریز، غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے سپورٹس روم، طالبات کی کلاسز کیلئے 25ہوادار اور بڑے کلاس رومز موجود ہیں، کالج میں بڑے ہال موجود ہیں جن میں بیک وقت 300طالبات کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، ان ہالز کو امتحانی مراکز کے طور پر بھی راولپنڈی بورڈ، پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات میں استعمال کیا جاتاہے، امسال یہ کالج مارکنگ سنٹر بھی بنا تھا۔

کالج میں طالبات کیلئے وسیع و عریض لائبریری موجود ہے جس میں مختلف موضوعات پر 10ہزار کے قریب کتب موجود ہیں اور ان کو الگ الگ الماریوں میں ترتیب سے رکھا گیا ہے، اس لائبریری کو بہترین انداز میں چلانے کیلئے کوالیفائیڈ لائبریرین بھی موجود ہے اور اب دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق اس لائبریری کو E-Library بنانے کیلئے کام شروع ہے اور آئندہ چند ماہ میں اس لائبریری کو ای لائبریری میں منتقل کر دیاجائے گا جس سے طالبات کو مزید آسانی و سہولت میسر ہوگی۔ کالج میں طالبات کیلئے جدید سہولیات سے مزین لیب موجود ہیں جن میں کمپیوٹر لیب، باٹنی لیب، کیمسٹری لیب، فزکس لیب، ہوم اکنامکس لیب شامل ہیں۔

کھیلوں میں کالج کی پرفارمنس کے حوالے سے سوال کے جواب میں پرنسپل جمیلہ ایوب کا کہنا تھا کہ غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے کالج میں ڈبل سٹوری وسیع و کشادہ ہال موجود ہے، آوٹ ڈور کھیلوں کیلئے طالبات کو وسیع و عریض میدان کی سہولت بھی دی گئی ہے جہاں وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔ راولپنڈی ڈویڑن میں بالخصوص اور پورے صوبے میں بالعموم کالج کا کھیلوں کے حوالے سے نمایاں مقام ہے اور طالبات کو کھیلوں کے میدان میں بہتر پرفارمنس دلوانے کیلئے 18ویں گریڈ کی سپورٹس ٹیچر ثوبیہ چوہدری موجود ہیں

جن کی انتھک کوششوں سے میرا کالج ڈویڑن لیول پر بیسٹ کالج ڈکلیئر ہوا، صوبائی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں کالج کی ہونہار کھلاڑیوں نے 8گولڈ میڈل اور 3سلور میڈل حاصل کئے، صوبائی سطح پر بھی اس کالج کو بیسٹ کالج کا ایوارڈ دیا گیاکالج میں طالبات کی تعلیم کیلئے تمام مضامین کے کوالیفائیڈ اساتذہ موجود ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ایم فل، پی ایچ ڈی ہیں۔ کالج کا رزلٹ ہمیشہ ہی اچھا رہا لیکن امسال انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ 74% رہا اور بی اے بی ایس کا رزلٹ 100فیصد رہا جو تحصیل گوجرخان میں موجود دیگر گورنمنٹ و پرائیویٹ کالجز کے مقابلے میں زیادہ ہیپرائیویٹ و سرکاری کالجز کے تقابل کے حوالے سے سوال کے جواب میں پرنسپل جمیلہ ایوب کا کہنا تھا کہ میں خود اسی کالج میں پڑھی ہوں اور اسی کالج میں بطور لیکچرار 1996 میں خدمات کا آغاز کیا تھا،

مستقل طور پر اسی کالج میں خدمات سرانجام دیتی رہی ہوں اور جب میری پروموشن ہوئی تو اب اسی کالج میں چار سال سے پرنسپل کی سیٹ پر خدمات سرانجام دے رہی ہوں، میں نہیں سمجھتی کہ میرے کالج کا کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ کالج سے تقابل بنتاہے، یہاں پر پرائیویٹ کالجز میں لوگ لاکھوں روپے فیس ادا کررہے اور ان کا سالانہ رزلٹ 50فیصد سے بھی کم آ رہاہے، وہ محض فیسیں بٹورنے کیلئے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں

اور دوسری طرف ہماری سوسائٹی کا مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ اچھی چیز مہنگی ملتی ہے، حالانکہ تعلیم کے شعبہ میں ایسا تقابل کسی صورت درست نہیں، گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین گوجرخان میں سالانہ فیس زیادہ سے زیادہ 10ہزار روپے تک ہے اور ہم لاکھوں لینے والوں سے بہتر انداز میں طالبات کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں

پرنسپل گرلز کالج جمیلہ ایوب نے اس بات پر زور دیا کہ والدین سرکاری اداروں پر اعتماد کااظہار کرتے ہوئے اپنے بچوں کو سرکاری اداروں میں داخل کرائیں اور پھر جب رزلٹ آئے گا تو ان کو واضح فرق محسوس ہو گا کہ لاکھوں روپے لینے والے سکول و کالجز بہتر تعلیم فراہم کررہے ہیں یا سرکاری طور پر چلنے والے ادارے ان کے بچوں بچیوں کی تعلیمی میدان میں بہتر تربیت کررہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید سہولیات سے آراستہ سرکاری سکولز و کالجز میں اپنے بچوں بچیوں کو داخل کرایا جائے اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت کیلئے انہیں بہترین ماحول فراہم کیاجائے جس سے ان میں خوداعتمادی بڑھے اور وہ زندگی کے میدان میں آگے بڑھیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں