206

زبان کا درست استعمال

آج ہماری سوسائٹی میں ہر جگہ نفرت کا ایک طوفان ہے، بالخصوص سیاست میں بہت زیادہ تلخیاں اور نفرتیں آگئی ہیں پورے معاشرے میں ایک پولارائزیشن ہے، جو ملک ایک کلمہ کی بنیاد پر بنا ہے آج نفرتوں نے بری طرح تقسیم کردیا ہے پاکستان جب بنا تو تمام مہاجرین جو اپنے گھر زمینیں اور اپنے پیاروں کی قربانیاں دے کر پاکستان پہنچے تھے.

ہم نے لاکھوں ماؤں اور بہنوں کی عزتوں کی قربانی دے کر پاکستان حاصل کیا۔ماؤں کے سامنے ان کے شیر خوار بچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا، بھائیوں اور باپوں کے سامنے ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا لیکن اس کے بعد ہم ملک کو کوئی نظام نہ دے سکے نتیجہ کیا حاصل ہوا کہ صرف چوبیس سال بعد ملک دو لخت ہوگیا، ہمارے نوے ہزار فوجی جوان انڈیا کی قید میں چلے گئے.

اس وقت بھی جماعت اسلامی کے بانی مرشد سید مودودی رحمہ اللہ اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن آگ جلانے والوں نے اپنا کام کردیا جماعت نے اس ملک کو بچانے کے لئے اپنے نوجوانوں کو فوج کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا پھر جب ملک ٹوٹ گیا ہماری فوج کے نوے ہزار نواجوان قیدی بن گئے پھر جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو ڈھاکہ گراؤنڈ میں چن چن کر شہید کیا گیا.

آج بھی وہاں جماعت اسلامی کی قیادت پھانسی کے پھندوں کو چوم رہی سیکڑوں جماعت اسلامی کے نوجوان بنگلہ دیش کی جیلوں میں بند ہیں ان کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے ملک کو بچانے کی کوشش کی تھی آج پھر پاکستان نفرتوں کی زد میں ہے پہلے کراچی جو منی پاکستان ہے اس کو ایک لسانی تنظیم نے تباہ کیا آج پورا ملک نفرتوں میں جل رہا ہے سیاسی نقطہ نظر میں اختلاف ہوسکتا ہے.

لیکن دوسرے کی عزت اور وقار کا خیال رکھنا ضروری ہے پاکستان کی تاریخ کی سب سے چھوٹی اپوزیشن جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں تھی وہ اپوزیشن چھوٹی تھی لیکن ان سے ہر فرد ایک مقام تھا ان کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا تھا پروفیسر عبدالغفور صاحب رحمۃ اللہ بھٹو صاحب کی سخت مخالفت کرتے تھے.

لیکن جب بولتے تو جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب کہ کر پکارتے یہ حالت جناب حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ، جناب محمود اعظم فاروقی رحمۃ اللہ اور جناب چوہدری ظہور الٰہی صاحب رحمۃ کی تھی ایک احترام موجود تھا لیکن سیاسی نقطہ نظر میں اختلاف بھی تھا آج بھی ضروری ہے کہ سیاسی نقطہ نظر میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ایک دوسرے کے برے القابات اور برے الفاظ سے بچا جائے .

مجھے جس سے اختلاف ہے وہ دوسری پارٹی کا سربراہ ہوسکتا ہے اس کے لے نامناسب الفاظ استعمال کرنا بالکل ٹھیک نہیں دوسری بات عورت کا احترام، عورت کا احترام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات بھی ہیں اور ہماری معاشرتی روایت بھی ہے عورت گھر کے اندر ہو، عورت کسی سرکاری ادارے میں کام کرنے والی ہو، کسی بینک میں کام کرنے والی ہو یا پارلیمنٹ میں موجود ہو اس کی عزت اور وقار کا تحفظ ہر مرد پر ضروری ہے،

چہ جائیکہ کہ اس کے لئے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا جائے یہ کسی سطح پر مناسب نہیں تیسرے نمبر علماء کا احترام ہم سب پر لازم ہے وہ جس بھی مسلک اور فرقے سے تعلق رکھنے ہیں ہمارے لیے قابل فخر اور قابل احترام ہیں سب سے ملاقات رکھنا سب سے ملنا سب کی مساجد میں جانا یہ ضروری ہے سب علماء کے پیچھے نماز پڑھیں ان کا احترام لازمی اور ضروری ہے چوتھے نمبر ہمارے گدی نشین ان کا احترام بہت ضروری ہے ان پاکیزہ ہستیوں کے آستانوں پر حاضری دینا ان سے ملنا ان سے دعاؤں کی درخواست
کرنا ان کے پاس بیٹھنا ضروری ہے پانچویں نمبر ہمارے اداروں کا احترام بہت ضروری ہے بالخصوص ہماری فوج ہمیں اس پر فخر ہے .

میں ایک فوجی باپ کا فوجی بیٹا ہوں مجھے اپنی فوج پر اپنی آئر فورس اور پاک نیوی پر فخر ہے میرے بھائی جان کمانڈر طالب حسین مرزا صاحب جنہوں نے نیوی کی 38 سال نوکری کی اور زیادہ سروس سمبرین کی تھی فوج سے کسی چیز پر اختلافِ ہوسکتا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا ایک بڑا دشمن انڈیا ہمیں اندر سے کمزور کرنا چاہتا ہے کہیں ہم ایک دوسرے کو تو کمزور نہیں کررہے چھٹے نمبر ہماری پولیس ہمیں پولیس سے بہت ساری شکایت ہیں.

لیکن کہیں وہ اچھا کام کریں تو ان کی تحسین کرنا بھی ضروری ہے میں جب کسی تھانہ یا چوکی انچارج کو اچھا ایکشن لیتے میں ان کو فون کرکے یا ان کو مل تعریف کرتا ہوں تھانہ مورگاہ کے ایس ایچ او نے دو ڈاکو گھر میں داخل ہوکر پکڑے تو میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ جاکر ان کو گلدستہ پیش کیا ہمارا میڈیا بہت ساری مشکلات کے باوجود بہت ساری چیزوں کو ہائی لائٹ کر رہا ان کی تعریف کرنا ضروری ہے جب وہ کوئی قابل تعریف کام کررہیں ہوں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں