160

کوٹلی ستیاں میں بڑھتے ٹریفک حادثات

دنیا کے تمام بڑے بڑے شہروں میں معیاری وسفری سہولیات کی وجہ ایک جامع اور مضبوط سسٹم ہے جس کے تحت شہر کی سڑکوں پر ذرائع آمدورفت کے حوالے سے عوام کی مشکلات دور کرنا آسان ہوتا ہے مگر کوٹلی ستیاں جیسے پسماندہ مگر قدرتی رنگینیوں سے بھرپور علاقہ میں صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی اور غفلت کی وجہ سے جامع اور مربوط نظام یہاں پر کبھی نظر ہی نہیں آیا یہی وجہ ہے

کہ گزشتہ کچھ سالوں میں بھی کوٹلی ستیاں کے مختلف روٹس پر درجنوں حادثات قیمتی جانوں کے ضیا ئع کا سبب بنے اور کئی خاندان ٹرانسپورٹ حادثہ کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہا ر گئے یہ تسلسل کئی برسوں سے جاری ہے جس کے بعد کوٹلی ستیاں کے صحافیوں،سوشل میڈیا ایکٹو یسٹ اور دیگر ہر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھر پور مہم چلا ئی ہیں کہ اس فرسودہ نظام میں پبلک سروس گا ڑیوں ہا ئی ایس سے سیڑیوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے

اور ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری لائی جائے بلکہ اس سلسلے میں باقاعدہ سروے کر کے معلو مات اکٹھی کی جا ئیں جس کے ذریعے ٹرا نسپو رٹ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملے گی اس سلسلے میں ایس ڈی پی کوٹلی ستیاں ستار خان نے گزشتہ سال ایک بھرپور کمپین پبلک سروس گاڑیوں کی سیڑھیوں کیخلاف شروع کی تھی جس کے خاصے اچھے نتائج بھی ملے اور اسے ٹرانسپورٹ یونین کی طرف سے بھی سراہا گیا امگر نہ جانے کیوں ایسا ہوا کہ یہ کمپین بھی ماند پڑ گئی اور پبلک سروس گاڑیوں کی چھتیں اور سیڑھیاں دوبارہ سے لگ گئیں ٹریفک کے نظام میں بہتری، سڑکوں کو کشادہ اور ان کی حالت بہتر بنانا

اور پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد بڑھا نے کے علاوہ موجودہ ٹرانسپورٹروں کو قانونی تقاضے پورے کرنے پر آمادہ کرنا اور پابند بنانا ایک عام شہری کا کام تو نہیں ہے بلکہ حکومت اور انتظامیہ ہی اس مسئلے کو حل کرسکتی ہے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا سنجیدہ و باشعور شہریوں کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومتِ پنجاب اور ڈسٹرکٹ و تحصیل انتظامیہ کی عدم توجہی محض ایک تاثر نہیں بلکہ حقیقت ہے اس سلسلے میں علاقہ عوام نے مختلف کھلی کچر یوں میں اور تحریری درخواستو ں کے ذریعے کوٹلی ستیاں کے ٹرانسپورٹ سسٹم میں متعلقہ کو تا ہیوں،

خامیوں اور غفلت سے متعلق حقائق سامنے لاے ہیں اور میڈیا نے بھی ان مسائل کو اجاگر کیا مگر اب تک کئی قیمتی جانوں کا ضیائع ہو چکا ہے کئی ما ؤں کے لخت جگر بہنوں کے سروں کے لال بھائی اس فرسودہ ٹرانسپورٹ سسٹم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور اب ٹرا نسپورٹ اتھارٹی شائد کسی بڑے سانحہ یا حادثے کا انتظار کررہے ہیں کہ تب جا کر وہ اس فرسودہ ٹرانسپورٹ سسٹم کیخلاف کاروائی کریں گے اور کیا ہائی ایس کی سیڑیاں اتریں گی، ناکارہ، کھٹارا اور ڈاون ماڈل گاڑیوں کو ختم کیا جاے گا کم عمر ڈرائیوروں کیخلاف موثر کا روائی عمل میں لائی جا ئے گی جو اکثر حادثات کا باعث بنتے ہیں روزانہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مطلوبہ اسٹاپ پر اترنے کے بعد آئینہ دیکھیں تو اپنی ہی صورت پہچانی نہیں جاتی یوں لگتا ہے

کہ کسی محاذِ جنگ سے واپسی ہوئی ہیطلبا اور دفاتر میں کام کرنے والوں کی اکثریت شہر میں گاڑیوں کی کمی کے باعث مجبوراً چھتوں اور سیڑیوں پر سفر کر نے پر مجبور ہوتے ہیں متعدد گاڑیاں بغیر روٹ پرمنٹ چل رہی ہیں۔سادہ زبان میں کسی مسافر گاڑی کا مخصوص گزر گاہوں پر رواں دواں رہنے کا اجازت نامہ ہی روٹ پرمٹ ہے جو متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے۔ اس کی باقاعدہ فیس وصول کی جاتی ہے جو صوبائی حکومت کے خزانے میں جمع ہوتی ہے

جو کہ اس علاقہ کے ریونیو کو بڑھانے کا بھی ذریعہ ہے مگر اس معاملے میں حکومت اور متعلقہ اداروں کی غفلت بھی معنی خیز ہے روزانہ سکولوں، کالجوں، دفاتر اور روزگار کے لیے جانے والوں پر ہر روز کیا بیتتی ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں طالب علم، محنت کش، سرکاری ملازمین اور چھوٹے دکاندار ہر روز کس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں اس کا اندازہ ہمارے حکمران ہرگز نہیں لگا سکتے۔ ہمارے پالیسی سازوں اور حکمران طبقے یا منتخب نمائندوں یا پھر متعلقہ ذمہ داروں کی اکثریت نے شاید ہی کوٹلی ستیاں کی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا ہو ہماری پبلک ٹرانسپورٹ کے فیصلے وہ کرتے ہیں جو خود کبھی اس میں سفر نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے جب بھی پالیسیاں تبدیل ہوتی ہیں

تو ان علاقوں میں سفر کر نے والوں کی تکالیف کو نظر انداز کر دیا جاتا اسی طرح کرایوں میں خاطر خواہ اضافے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی سواری اب نچلیو درمیانے طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہو گئی ہے جبکہ سواری نہ تو آرام دہ ہے اور نہ ہی محفوظ، اس کی وجہ سے فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دنیا کے تمام جدید اور ترقی یافتہ شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید ترین نظام انڈر گراؤنڈ ٹرینوں کی شکل میں موجود ہے۔ مگر یہاں کوٹلی ستیاں میں ٹرانسپورٹ کے اسی فرسودہ نظام کے ساتھ 21 ویں صدی میں داخل ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ کے موثر، مربوط اور منظم نظام کو زمہ داران نے کبھی بھی سنجیدگی سے نہیں لیا یہی وجہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ مزید گھمبیر ہو تا جا رہا ہے

پبلک ٹرانسپورٹ کے جدید اور موثر نظام کے بغیر جدید شہری زندگی کا تصور بھی محال ہے جبکہ ذاتی گاڑیوں میں اضافہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے مسافروں و اہل علاقہ نے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز، سیکرٹری ٹرانسپورٹ پنجاب، منتخب نمائندوں اسامہ سرور، بلال یامین ستی اور آ ر پی او راولپنڈی،سی ٹی او مری سے فوری نو ٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں