طاہر محمود ستی/
کردار میں بھری تھیں عزیمت کی بجلیاں!
آہ! ناموسِ رسالت ؐکا پہریدار چلا گیا
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا*
عاشقانِ مصطفیؐ رنجیدہ ہیں؛ آنکھیں نم ہیں – اِس لیے کہ پاکستان کی سرزمین پر مردِ حق آگاہ (علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ) جو ناموسِ رسالت ؐ کے تحفظ کے لیے پہرہ دیتا تھا‘ وہ اِس جہانِ فانی سے رُخصت ہوا۔ انا للہ و انا الیہ رٰجعون ؎
کردار میں بھری تھیں عزیمت کی بجلیاں
تجھ کو جھکا سکے نہ شدائد، تجھے سلام
(فریدی مصباحی)
علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ ایک فکر کا نام ہے۔ ایک عزم کا نام ہے۔ ایک جذبہ صالح کا نام ہے۔ حق و صداقت کے داعی کا نام ہے۔ جن کی زندگی اس عنوان کے ساتھ اُبھر کر سامنے آئی‘ جہاں ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جایا کرتی ہیں۔ رسولؐ اللہ سے نسبت ہی ہمارا سرمایہ ہے۔ آقا ؐسے محبت ہی وہ قیمتی دولت ہے کہ جو ہمیں تمام جہان سے پیاری ہے۔ جان سے زیادہ عزیز ہے- ناموسِ رسالت ؐ کے تحفظ کے لیے مردِ حق آگاہ علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ کی صورت میں نمایاں ہوا۔ اور عاشقانِ رسول کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ وہ مشنِ اعلیٰ حضرت کا بے باک داعی تھا- آج دُنیا میں جتنی باطل قوتیں ہیں‘ سب کا نشانہ رسولؐ اللہ کی ذاتِ پاک ہے۔ بے ادبیوں کا ہنگامہ ہے۔ گستاخیوں کے ہزاروں کیکر‘ببول اور تھوہڑ کی کاشت کی جا رہی ہے۔ بنامِ مسلم کتنے ہی دھتورے اُگائے جا چکے ہیں – جن کے استحصال کے لیے ”حسام الحرمین” کی ضرورت ہے- تمام باطل قوتیں اس پوائنٹ پر یکجا ہیں کہ رسول اللہ ؐ سے رشتہ غلامی کو توڑ دیا جائے؛ تا کہ مسلمان کبھی اُبھر نہ سکے۔ وہ مُردہ ہو جائے۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
عشقِ رسولؐ دلوں سے نکالنے کے لیے صدیوں سے دُشمنانِ اسلام متحرک ہیں۔ گزری صدی میں گستاخوں کو بے نقاب کرنے میں سب سے نمایاں خدمت انجام دینے والی ذات اعلیٰ حضرت کی رہی ہے‘ جن کی زندگی کے لیل و نہار تحفظ ناموسِ رسالت ؐکے لیے وقف تھے۔ جن کا پیغام تھا
جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا نازِ دوا اُٹھائے کیوں
اعلیٰ حضرت کے پیغامِ عشقِ رسول ؐاور ناموسِ رسالت ؐ کی پہریداری کے لیے فکر رضاؔ کا شیدائی علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ کی شکل میں سامنے آیا۔ اور ”قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردینے“ کا جذبہ صالح لے کر آگے بڑھا۔ یقیں کی اس منزل پر فائز ہوا؛ جہاں باطل کی شوکت و قوت کا خوف اور رعب زیر قدم ہوتا ہے۔ جہاں جرات و بہادری کا ہر باب تازہ ہوتا ہے
تازہ مِرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفیٰ، عقل تمام بولہب
علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ نے اپنی تحریک کی بنیاد ہی تحفظِ ناموسِ رسالت ؐکے عزم پر رکھی۔ قادیانیت‘ صہیونیت‘ یہودیت‘ لادینیت کے خلاف وہ آہنی دیوار بن گئے۔ انگریز نواز حکمراں‘ قادیانیت نواز سربراہانِ وقت اور لبرلز افکار کے مبلغین گٹھنوں بیٹھ گئے۔ بارہا ایسا ہوا کہ قادیانیت نے پوری طاقت کے ساتھ عقائدِ اسلامی کی فصیل پر حملہ کیا، لیکن مردِ مجاہد نے پامردی کے ساتھ ان کے فریب کا جواب دیا۔ ان کا مقصد نیک تھا۔ ان کے عزائم مستحکم تھے۔ یقیں محکم کی قوت سے وہ مالا مال تھے۔ ناموسِ رسالت ؐ کے لیے جاں نثاری کے جذبات سے معمور تھے۔ اسی لیے پایہ استقامت متزلزل نہ ہوا۔ نہ ہی جاہ و حشم انھیں جھکا سکے۔ ان کے سامنے امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت کا یہ درس تھا کہ
کروں مدح اہلِ دول رضاؔ پڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارہ ناں نہیں
19 نومبر2020ء کی شب علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ کے وصال کی خبر بجلی بن کر گری۔ عاشقانِ رسول کے دل تھم گئے۔ جذبات امڈ پڑے۔ آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ طبیعتیں مضمحل ہو گئیں۔ ہمارا ان سے کیا رشتہ تھا؟ یہی کہ وہ سرحدِ عشقِ رسول ؐ کی نگہبانی کرتے تھے۔ وہ گستاخِ رسول کے لیے مداہنت و رعایت کے قائل نہ تھے؛ بلکہ اعلیٰ حضرت کے اس پیغام کو حرزِ جاں بنائے ہوئے تھے؎
دشمن احمد پہ شدت کیجیے
ملحدوں کی کیا مروت کیجیے
اور حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ کے اس پیغام کی بھی عملی تعبیر تھے؎
نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کر دیں
پدر مادر برادر مال و جاں ان پر فدا کر دیں
فرانس اور یورپ کے گستاخوں نے رسولؐ اللہ کی بے ادبی کی۔ اپنے خبثِ باطنی کا مظاہرہ کیا۔ مسلمانوں کی حرارتِ ایمانی کو ناپنا چاہا۔ علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ ڈٹ گئے۔ آپ نے وہ احتجاج درج کرایا جس سے پڑوسی ملک کے اقتدار کی چولیں ہل گئیں۔ فرانس کے گستاخ گھبرا گئے۔ انھیں ایک وہیل چیئر پر براجمان بزرگ سے خوف تھا۔ انھیں ڈر تھا کہ یہ تو جوانوں میں روح پھونک دیتا ہے۔ حرارتِ ایمانی کو اپیل کرتا ہے۔ بوڑھوں کو جواں عزم دیتا ہے۔ یقیں محکم کے ساتھ محبتوں کا توشہ سنبھالنے کا مزاج دیتا ہے۔
وہ گئے لیکن ایک عزم دے گئے۔ فرانس کے گستاخوں کے خلاف استقامت کے ساتھ مظاہرہ کیا۔ یوں ناموسِ رسالت ؐ کی تادمِ آخر پہریداری کے درسِ زریں کو آخری سانس تک دوہراتے رہے۔ ان سے عقیدت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے مشن کو یاد رکھیں۔رسول اللہ ؐ کے گستاخوں سے متنفر رہیں۔ گستاخوں سے نرمی نہ برتیں؛ بلکہ ایمانی حرارت کا مظاہرہ کر کے اپنی زندگی کا ہر صفحہ درخشاں بنائیں تا کہ موت کی وادی بھی محبت رسول ؐ کے جذبہ صالح پر گواہ بن جائے۔ تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ نے جو درس دیا وہ بالکل واضح ہے ؎
ملک بھر سے آخری دیدار اور نماز جنازہ کیلئے عاشقان مصطفی ؐ کا(تقریبا ایک کروڑ ستر لاکھ) جم غفیر اس بات کی تائید کررہا تھا کہ واقعی انمول ہیرا علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ دنیا سے چلا گیا؎
زندگی یہ نہیں ہے کسی کے لیے
زندگی ہے نبی کی نبی کے لیے
ناسمجھ مرتے ہیں زندگی کے لیے
جینا مرنا ہے سب کچھ نبی ؐکے لیے
داغِ عشق نبیؐلے چلو قبر میں
ہے چراغِ لحد روشنی کے لیے
مشنِ علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمۃ ”عشقِ رسولؐ” ہے گستاخوں سے بیزاری ہے اس لیے مشن زندہ رہے گا ان شاء اللہ!
249