162

روات انڈسٹریل زون سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے‘ عبدالرحیم

انٹرویو:شہزادرضا‘عکاسی :یاسر صابری
ملک کے طول و عرض میں قائم انڈسٹریل اسٹیٹس ریاست کو بڑا سہارا دئیے ہوئے ہیں چاہے وہ بیروزگار افراد کو روزگار دے کر ہو یا پھر ملکی وسائل میں اضافہ ہو ۔سرمایہ کار اسی وقت پیسہ لگاتا ہے جب ریاست اسے تمام حقوق فراہم کرتی ہے اور انھیں درپیش مشکلات کے ازالہ کے لیے ہنگامی اقدامات کرتی ہے اور بالخصوص پاکستان میں جہاں بیروزگاری کی شرح میں دن بدن خطر ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے پرائیویٹ سیکٹر کے پھلنے پھولنے سے بیروزگاری کے خاتمے میں مدد تو ملتی لیکن وہیں پر ملک کے اندر کسی بھی شے کا کارخانہ لگا کر اسے کم قیمت میں مارکیٹ بھیجا جاتا ہے نسبتاً اس چیز کے جو بیرون ملک سے منگوائی جاتی ہے ریاست کی ذمہ داریاں اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہیں جب سرمایہ کار عدم تحفظ کا شکار ہو جب آپ اپنے شہری کے لگائے گئے کارخانے کا تحفظ نہیں کر سکتے تو بیرون ملک سے لوگوں کو کیسے کاروبار کے لیے متوجہ کر سکیں گے روات انڈسٹریل اسٹیٹ میں اس وقت ہزاروں افراد روزگار سے وابستہ ہیں ان میں کم پڑھے لکھے خواتین وحضرات بھی شامل ہیں شاید وہ گھر کے واحد کفیل بھی ہوں اس سے ہٹ کر انڈسٹریل زون کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ بھی ہے کہ کسی وفاقی یا صوبائی وزیر نے یہاں کا دورہ تک نہیں کیا اور سرمایہ کاروں سے ان کے مسائل جاننے کی توفیق نہ ہو سکی حالانکہ بہت سے ملکی سیاست میں بڑے ناموں نے یہاں فیکٹریاں بھی لگا رکھی ہیں اس کے باوجود روات انڈسٹریل زون کا اپنا راستہ تک موجود نہیں زمین کی نشاندہی کے باوجود راستے کا معاملہ تاحال لٹکا ہوا ہے یہ باتیں اے ۔آر۔ پی فارما سیوٹیکل کے مینجنگ ڈائریکٹر چوہدری وقار رحیم نے پنڈی پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کیں انھوں نے کہا کہ سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے کے باوجود عدم تحفظ کا شکار ہے ریسکیو کی بنیادی سہولت تک موجود نہیں 200سے زائد انڈسٹریز یہاں پر کام کر رہی ہیں خدانخواستہ یہاں کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ کرنا پڑتا ہے سڑکیں ہیں کہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں سیکیورٹی کا نظام‘ سٹریٹ لائٹس اور سیوریج کا نظام سرے سے موجود نہیں مجھے بتائیں سرمایہ کار کیسے اپنا سرمایہ خرچ کرے گا ہمیں راستے پختہ کرنے اور سٹریٹ لائٹس کے لیے بھی انتظامات خود سے کرنے پڑتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے آئے روز نئے ٹیکسز عائدکر دئیے جاتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں سرمایہ کار کو ریلیف مہیا کیا گیا تھا بجلی کے بلوں میں وزیر اعظم ریلیف کے تحت سرمایہ کار کو خصوصی رعائیت حاصل تھی اس حکومت نے وہ بھی ختم کر دی تحریک انصاف کی حکومت آنے سے سرمایہ کار خوف میں مبتلا ہے ڈالر کہاں سے کہاں تک پہنچ چکا جب ہم باہر سے ادویات بنانے کے لیے خام مال منگوائیں گے ہم پہ تو اس کا اضافی بوجھ پڑ گیا جبکہ ادویات کی قیمتیں بھی وہی رہیں گی ۔راولپنڈی چیمبر آف کامرس نے اب تک بہت سارے معاملات پر تعاون کیا ہے میرے نزدیک مقامی تنظیم NIZDAکے ساتھ مل کر ہمیں کاروباری معاملات میں بہت معاونت کر رہے ہیں لیکن مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے لوڈ شیڈنگ زیادہ ہوجانے کی وجہ سے ہمیں الگ سے ٹرانسمیشن لائنیں بچھا دی گئیں جس کے بعد سے انڈسٹری کو بجلی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑااس طرح کے اور بھی اقدامات کی ضرورت ہے جس سے صنعت کار کو فائدہ حاصل ہو ۔وقار رحیم کا مزید کہنا تھا کہ صنعت لگانے والا ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کر دیتا ہے اور اسے ساری امیدیں حکومت کی جانب سے ملنے والے ریلیف کی جانب ہوتی ہیں کیوں کہ انڈسٹری کو چلانے میں حکومتی ریلیف بہت ضروری ہے وزیر اعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے مسائل کو سمجھ کر پالیسیاں ترتیب دیں ٹیکس بھی لگائیں مگر صنعت کار کے تحفظ کا بھی سوچیں انڈسٹری کے پھلنے پھولنے سے ہی معیشت مستحکم ہو گی ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں