185

نئی حلقہ بندیاں نثار کی سیاست جمود کا شکار

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
وطن عزیز میں جب سے حلقہ بندیوں کی تلوار لٹکنی شروع ہو ئی ہے اس وقت سے این اے باون کی سیاست میں ایک جمود سا طاری ہو گیا ہے آئے روز ہونے والی سیاسی سرگرمیوں اور افتتاح کے موقع پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے کی رسمیں ماند پڑ گئی ہیں اور سیاسی سر گرمیوں کے ماند پڑنے سے پھولوں اور مالا بیچنے والوں کا کاروبار بھی مندے کا شکار نظر آتا ہے موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک شعر کا مصرعہ ذہن میں بار بار گردش کر رہا ہے ،،کہ موج ہے دریا سے بیرون دریاء کچھ نہیں ،،اس وقت اس کی عملی نظیر چوہدری نثار علی خان کی سیاست میں نظر آرہی ہے ان کی سیاست کی کشتی اس وقت بھنور میں پھنسی ہوئی ہے جب وہ پارٹی کے ساتھ تھے اور ان کی آواز پارٹی کے ساتھ بلند ہوتی تھی تو وہ پارٹی کی جان سمجھے جاتے تھے اور ان کی مشاورت کے بغیر پارٹی کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکتا تھا لیکن گزشتہ کچھ عرصہ نے جہاں انہوں نے میاں نواز شریف کی اداروں پر کھل کر تنقید کی مخالفت شروع کی تو ان کو پارٹی میں موجود اس جتھے کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف ان کی سیاست اور مشاورت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کو بھی سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے اور اس کا وہ برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کو پارٹی میں مشاورت کے حوالہ سے پوچھا نہیں جاتا ہے دوسری طرف حلقہ میں بھی ان کی سیاست کا ایک نیاء رخ سامنے آیا ہے کہ انہوں نے یوسی کی سطح پر اپنی مہم شروع کر دی ہے ،،بدلتا ہے آسمان رنگ کیسے کیسے،،کے مصداق کل تک جہاں ان کے معاونین کام چلاتے تھے اس جگہ پر اب چوہدری نثار کو خود جانا پڑتا ہے بلکہ عوام کی کڑوی کسیلی باتیں بھی کسی حد تک سننا پڑتی ہیں بلکہ الیکشن کے نزدیک آنے تک ان باتوں میں اضافے کی توقع کی جا سکتی ہے دوسری طرف ایک سوال جو سراٹھا کر کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ان کو پارٹی ٹکٹ دے گی کیونکہ اس وقت شنید یہ کی جا رہی ہے کہ آمدہ الیکشنوں میں پارٹی ٹکٹس کا فیصلہ مریم نواز شریف کریں گی اور چوہدری نثار علی خان اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ مریم نواز کو کسی صورت بھی لیڈر تسلیم نہیں کرتے تو وہ کیسے ٹکٹ کے لیے اپلائی کریں گے اور اگر ان کو ٹکٹ نہیں ملتا تو وہ آذاد حثیت سے کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو ان کا کیا مقام ہو گا اور ایک سیٹ لیکر وہ کس کے ساتھ بیٹھیں گے ،،اب بیرون دریا کچھ نہیں کہ عملی مثال بن چکے ہیں دوسری طرف ایک نظر صوبائی اسمبلی یعنی موجودہ حلقہ پی پی 5 اس پر موجودہ ایم پی اے قمرالسلام راجہ جو کہ ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے گزشتہ دس برسوں سے اس سیٹ پر براجمان ہیں اور ان کی کارکردگی پر نظر ڈوڑائی جائے تو ق لیگ کے دور میں ان کا کام مثالی تھا لیکن ن لیگ میں ان کے عوامی کاموں کے حوالہ سے ان کی کارکردگی اس وقت تک صفر ہے ان کا کرکردگی حکومت پنجاب کے لیے تو شائید بہت مثالی ہو اور اس میں انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا جو میاں شہباز شریف چاہتے تھے لیکن حلقہ کی عوام کی امنگوں پر وہ اس طرح پورا نہیں اتر سکے جس طرح اس حلقہ کی عوام ان کو چاہتی تھی گوکہ وہ بلاناغہ ہو اتوار اپنے آفس چوکپنڈوری میں آتے ہیں اور عوام کے مسائل سنتے بھی ہیں لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ان کا حلقہ کے لیے کام نہ کرنے کا تاثر زائل نہ ہو سکا اور اس بات کا افسوس وہ سوشل میڈیا پر بھی برملا شعروں کی صورت میں کرتے نظر آتے ہیں ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرنے میں معاونین چوہدری نثار علی خان کا ہاتھ کسی نہ کسی طرح رہا ہے جس کا ان کو پورا احساس ہے لیکن شائید پارٹی پالیسی یا پھر چوہدری نثار کے لب لہجہ نے ان کو بریک لگا دی اور انہوں نے اپنا راستہ ہی بدل دیا اور اپنا فوکس حکومت پنجاب کے کاموں میں اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت وہ 110%تک کامیاب ہوئے اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنی موجودہ کارکردگی اورردوبدل کے باعث وہ آمدہ الیکشن لڑیں گے اس کا امکان ففٹی ففٹی ہے اور ان کی کامیابی حلقہ بندیوں سے کے ساتھ بھی مشروط ہونے کے ساتھ ساتھان کی پارٹی کے اندر ہی ان کے مقابلہ کے لیے امیدوار موجود ہیں جو اس وقت عوامی حلقوں میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں ان میں سرفہرست چیئرمین یوسی بشندوٹ زبیر کیانی ہیں کیا وہ الیکشن لڑیں گے اس حوالہ سے انہوں مکمل چپ سادھ رکھی ہے لیکن اگر وہ میدان میں خم ٹھونک کر آتے ہیں تو وہ کسی بھی امیدوار کے لیے محاورتا نہیں بلکہ حقیقی لوہے کے چنے ثابت ہوں گے اس کے علاوہ اس وقت معاون خصوصی شیخ ساجدالرحمان نے بھی الیکشن لڑنے کا عندیہ دے رکھا ہے اور وہ کبھی کبھار اس کا اظہار زمینی حقائق کو چیک کرنے اپنے دوستوں کے زریعہ اس کو چیک بھی کرتے رہتے ہیں لیکن فی الحال وہ کھل کر میدان میں نہیں آئے ہیں اور اگر حلقہ بندیوں کی کسی کو حقیقی خوشی ہو گی تو ان میں شیح ساجدالرحمان سر فہرست ہون گے اب دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی نے صوبائی سطح پر ابھی تک کسی امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے لیکن تحریک انصاف کے امیدوار میدان میں موجود ہیں ان میں سر فہرست چوہدری امیر افضل کا نام ہے اور اس وقت وہ صوبائی سطح پر بھرپور محنت کر رہے ہیں وہ الیکشن کے دنوں میں کسی بھی پارٹی کے امیدوار کے لیے بھر پور چیلنج بن سکتے ہیں گوکہ اس وقت تحریک انصاف کے اندر الیکشن کی خواہش رکھنے والے امیدواروں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ان کی اس وقت گراونڈپر کام اور محنت میں چوہدری امیر افضل کا مقابلہ تحریک انصاف کے اندر شائید کسی بھی الیکشن کے خواہش مند امیدوار کا جیتنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا چوہدری نثار کا ن لیگ کے ٹکٹ کے بغیر آذاد الیکشن میں حصۃ لے لر کامیابی حاصل کرنا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں