آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
وطن عزیز میں سیاست کا انداز اور نرالا ہے جونہی انتخابات قریب آتے ہیں تو جس پارٹی کے الیکشن میں کامیابی کے امکانات واضع ہوتے ہیں مفاداتی ٹولہ اسی کے حق میں پریس کانفرنسز کر کے گزشتہ پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اسی پارٹی کو باتیں سنا کر نئی چھتری پر بیٹھ کر نئی پار ٹی کے گیت گانے لگتا ہے دوسری طرف الیکشن نزدیک آتے ہیں سیاسی پارٹیوں میں دھڑے بندیاں بھی کھل کر سامنے آجاتی ہیں موجودہ دور میں سیاسی انتشار کچھ زیادہ ہی نظر آرہا ہے اس انتشار کا زیادہ اثر این اے باون پر پڑتا نظر آرہا ہے دوسری طرف دبنگ سیاست دان کا خطاب پانے والے چوہدری نثار علی خان کی اپنی سیاست اس وقت کچھ زیادہ ہی متاثر ہورہی ہے اس کا آغاز بذات خود چوہدری نثار علی خان نے کیا جب میاں نواز شریف کی نااہلیت کا فیصلہ آیا تو اس وقت چوہدری نثار نے اپنی توپوں کا رخ میاں نواز شریف کی طرف کر لیا اور اس دن سے حلقہ کی عوام کو پاکستان میں ایک نئی سیاست کو دیکھنے کا موقع ملا پوٹھواری کی ایک مشہور ضرب المثل ہے(نالے ماسی نالے چونڈیاں)اس کی نمونہ اس وقت چوہدری نثار علی خان کی سیاست میں نظر آرہا ہے ایک طرف تو وہ ایک دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی ابتداء انہوں میاں نواز شریف سے ملکر اس کی بنیاد رکھی اور وہ اس پارٹی سے علیحدگی کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن دوسری طرف انہوں نے میاں نوز شریف کی ذات کو ہی تختہ مشق بنایا ہوا ہے پارلیمنٹ میں میاں نواز شریف کو پارٹی صدر بنانے کے حوالہ سے بل میں انہوں نے اپنا ووٹ نوز شریف کے حق میں دیا لیکن جب میاں نواز شریف کسی بھی حوالہ سے احتجاج کا لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں تو سب سے پہلے جو بیان ان کے خلاف آتا ہے اس کا سہرا چوہدری نثار علی خان کے سر جاتا ہے انہوں نے ہر اس کام کی کھل کر مخالفت کی جس کا اعلان میاں نواز شریف نے کیا ہو اعدالتی فیصلے کے بعد پہلا دھچکا انہوں نے میاں نواز شریف کو اس وقت دیا جب وہ روڈ کے زریعہ جا رہے تھے تو اپنے حلقہ میں ان کا رسپانس زیرو تھا جس پر نہ صرف میاں نواز شریف بلکہ عام آدمی بھی ان کے اس کارنامے پر حیران تھا اگلے چند دنوں بعد انہوں نے روات کے مقام پر ایک بڑا جلسہ کرکے شائید پارٹی کو یہ پیغام دیا کہ میں جب چاہوں اور جو چاہوں کر سکتا ہوں لیکن حالیہ دنوں میں جب پر ویز رشید نے ان کے خلاف کھل کر بیان دیا تو انہوں نے ایک بار پھر اپنی توپوں کا رخ کر لیا اور کھل کر کہا کہ اگر کسی کو شک ہے تو ڈان لیکس کی رپورٹ کو عام کیا جائے جس سے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ ان کے حلقہ پر بھی ایک نئی بحث کو جنم دے دیا لیکن اب پارٹی کے اندر ان کے خلاف بنا ہو ا پرانا محاذ ایک بار پھر سرگرم ہو گیا ہے اور وہ گروپ اب میاں نواز شریف کی گڈ بک میں شامل ہے لیکن دوسری طرف چوہدری نثار علی خان کو ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے اور اب ان کو پارٹی میں وہ مقام نہیں دیا جا رہا جس کے وہ حقدار تھے اس سے پہلے ان کے بغیر پارٹی مشاورت نامکمل ہو تی تھی لیکن اب ان کو شامل کرنا گوارا نہیں کیا جاتا جس کا چوہدری نثار علی خان کی سیاست پر گہرا اثر مرتب ہو رہا ہے دوسری طرف انہوں نے دوحلقوں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن شنید کی جارہی ہے کہ اگر وہ ن لیگ میں رہے تو ان کو ایک حلقہ کا ٹکٹ دیا جائے گا لیکن سیاسی پنڈت کہتے ہیں اور اگر ان کو ایک حلقہ کا ٹکٹ ملا تووہ آذاد الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن مقتدر حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا رسک نہیں لے سکتے کیونکہ اگر وہ آزاد حثیت سے میدان میں آئے تو ان کے خلاف ن لیگ کا بھی کوئی کمزور امیدوار بھی آگیا ہے تو الیکشن ان کے لیے نہ صرف جیتنا مشکل ہو گا بلکہ ناممکن ہوگا دوسری طرف اگر ن لیگ ٹکٹ جاری نہیں کرتی اور نہ ہی ان کو سپورٹ کرتی ہے تو بھی ن لیگ کا ووٹ بینک ان کو سپورٹ نہیں کرے گا کیونکہ اب ن لیگ کے چاہنے والے چوہدری نثار کی سیاست کو کبھی سپورٹ نہیں کریں گے ن لیگ کے چاہنے والے اب کھل کر کہتے ہیں کہ اگر وہ پارٹی ٹکٹ کے بغیر الیکشن لڑیں تو ان کو بھی آٹے دال کا بھاو معلوم ہوجائے گا دوسری جانب کیونکہ اس حلقہ میں ان کے سامنے جہاں تحریک انصاف کے امیدواروں کا سامنا کرنا ہوگا جو اب پہلے سے بہت بہتر گراونڈ ورک کے ساتھ موجود ہیں تو ان کے سامنے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے امیدوار بھی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہو گی کیونکہ گزشتہ دنوں دھرنے میں شہید ہونے والوں کے چہلم کے موقع پر برملا یہ اعلان کیا گیا کہ آمدہ الیکشنوں میں چوہدری نثار اور احسن اقبال سے شہداء کا حساب لیا جائے گا اس حلقہ میں اس وقت جو سیاست چوہدری نثار علی خان کر رہے ہیں اس پر ان کے اپنے ووٹر بھی سخت حیران پریشان ہیں کہ یہ کون سے سیاست کی قسم ہے ایک طرف انہوں نے اپنی الیکشن کا قبل از وقت آغاز بھی کر دیاجہاں وہ ایک طرف مخالفین کو آڑھے ہاتھوں لے رہے ہیں تو دوسری طرف اپنی پارٹی پر بھی خوب گرج برس رہے ہیں ان کی اس سیاست کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ وقت بتائے گا لیکن ان کی اس انوکھی طرز سیاست نے ان کے ووٹروں سپورٹروں کے ساتھ ساتھ عام عوام کو انگشت بدنداں کر رکھا ہے
181