132

حلقہ 50کے عوام وزیر اعظم سے نالاں

عمار یاسر ،کہوٹہ
سابق وزیراعظم و حالیہ پسِ پردہ وزارتِ عظمیٰ کے منتظم جناب نواز شریف نے جب سر زمینِ نڑھ تحصیل کہوٹہ کو چرن بھوسی کا شرف بخشا تھا تو دلوں کے وزیر اعظم نے ایسے سبز باغات دکھائے تھے جو سال کے چوبیسوں مہینے غیر ثمر یافتہ رہتے ہیں خیر گلہ کروں گا تو شاید ممکنہ جواز حاضر ہو کہ حضور جب ہم ہی نہ رہے تو وعدے کیسے پورے ہوں
ہمارے درویش وزیراعظم جب وزیرِ پٹرولیم تھے تو شاید عوامی توقعات کے مینار فلک بوس نہ تھے پھر اللہ بھلا کرے پانامہ لیکس کا کہ درویش عباسی صاحب کو وزراتِ عظمی کا جھنڈا تھما دیا گیااین اے 50 کے باسیوں کے لیے ایک بہترین خبر تھی کہ ہمارا نمائندہ ریاست کی اعلی ترین کرسی پر براجمان ہو چکا ہے اب علاقے کی بہتری تو پکی ٹھکی ہے پھر راوی نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب ہمارا منتخب نمائندہ قومی اسمبلی میں عدالتی نااہل شریف کی تصویر لیے آتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے” آج بھی وزیراعظم نواز شریف ہے”.ہمارے ایم این اے صاحب کم از کم ظاہری وزیراعظم تو بن گئے مگر حلقے کو ایسے بھول بسر گئے کہ اہلِ حلقہ کو گمان گزرتا ہے کہ شاید ہمارا تو کوئی ایم این اے ہی نہیں خیر اب ایسی بھی کوئی بات نہیں وزیراعظم صاحب شروع سے ہی درویشی شخصیت کے مالک ہیں عوامی مسائل سننے کی غرض سے ان کا نمائندہ خاص موجود ہے جو وزیراعظم صاحب کی ذمہ داریاں سرانجام دیتا ہے عوامی مسائل سنتا ہے شاید اور پروسس کر کے سلطنتِ عباسیہ کے سرچشم و چراغ کو ارسال کی جاتی ہیں یہ بھی کون کہہ سکتا ہے کہ مسائل سنے جاتے ہیں؟ نہ حلقہ این اے 52 کے نمائندے چوہدری نثار کی طرح کھلی کچہری منعقد کی جاتی ہے اور نہ ہی مسائل وضع کرنے کو کوئی منظم طریقہ کار دستیاب ہے بس وہی رسائی حاصل کر سکتا ہے جس کے ہاتھ لمبے ہیں مجھ سا لولا لنگڑا کہاں جائے؟کون شنوائی کرے گا؟ مافی معلومیہ تو رہا پیارے وزیراعظم کا شاہانہ اور مغلیہ طرزِ سیاست این اے 50 کے مسائل کی بات کی جائے کیا بعد از حصولِ وزارتِ عظمی کیا مسائل حل ہوئے ہیں؟تو جواب نفی میں ہے فہرست مرتب کروں؟ملاحظہ کیجئے حضور!ڈبل روڈ کا مسئلہ پہلے بھی تھا اور اب بھی موجود ہے تحصیل کہوٹہ اور کلر سیداں ملحقہ تحصیلیں ہیں کلرسیداں میں کام کرنے والے میڈیا نیٹ ورک ہماری تحصیل کہوٹہ کی نسبت زیادہ ایکٹو ہے آپ ملاحظہ فرمائیں آئے دن کہوٹہ تا روالپنڈی روڈ پر حادثات کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں ابھی گزشتہ دنوں ہی عباسی خاندان کے دو بھائی اور ایک چچازاد لقمہ اجل بنے نسبتا دیکھا جائے تو کلرروڈ ڈبل ہونے کی وجہ سے حادثات میں نمایاں کمی دیکھی جا سکتی ہے کیا جب سارے کہوٹہ والے مارے جائیں گے تب اس معاملے پر نظر فرمائی جائے گی؟سہالہ پھاٹک کا معمہ اب ایک المیہ بنتا جا رہا ہے جو ہمارے سیاسی نمائندوں کی کارگردگی پر ایسا کالا سوالیہ نشان لگاتا ہے جیسے سعادت حسن منٹو مردوں کی مردانگی پر سوالات کھڑے کرتے ہیں جامعات کا مسلہ کب حل ہوا ہے؟ہماری بہنیں اعلی تعلیم کے لیے کہاں جائیں؟سو میٹرک یا ایف اے کے بعد خواتین درپیش ملکی حالات سے خوفزدہ ہو کر گھر بیٹھ جاتی ہیں تعلیم کا سلسلہ ٹھپ یوں ایک عورت نہیں آنے والا ایک پورا گھرانہ جہالت کی
ظلمت میں ڈوب جاتا ہے یہ مسلہ بھی قائم و دائم ہے سرکاری ہسپتال کی بہتری غریب عوام کی صحتوں کے ساتھ کھلواڑ کب ختم ہوا ہے پہلے کی طرح اب بھی کوئی مریض نرڑ ھ کی خطرناک روڈ پر سفر کرتے ہوئے کہوٹہ سرکاری ہسپتال میں پہنچایا جاتا ہے تو ارشاد ہوتا ہے”جتنا جلدی ہو سکے پنڈی لے جائیں”.پھر کوئی پنڈی پہنچتا ہے اور کوئی اللہ کے حضور!خان ریسرچ لیباٹریز کا کہوٹہ میں وقوع مقامی افراد کے لیے کیا فائدہ مند ہے کچھ پتا نہیں ہماری بنیادی حقوق سلب کیے جا رہے ہیں اصول یہ ہے کہ جب کوئی پروجیکٹ کسی علاقے میں لگایا جاتا ہے تو ترجیحی بنیادوں پر اہلِ علاقہ کو حاصل ثمر سے بحر مند کیا جاتا ہے صد افسوس کہوٹہ کے نوجوان اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود پردیس کی مٹی چھان رہے ہیں میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پتھر اکھاڑیں تو تہہِ سنگ سے گریجوئیٹ نوجوان برآمد ہوگا لیکن یہاں کسی کو کیا غرض کہوٹہ والوں کے لیے کے آر ایل میں کوئی کوٹہ مختص نہ کیا گیا ہے پولیس کی بہتری ایک بڑا معاملہ ہے منشیات کہوٹہ میں گھر کر چکی ہیں پولیس کی کارگردگی اس حوالے سے صفر ہے یہ سب کے سب بڑے مسائل ہیں جو پہلے بھی موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں گویا وزیراعظم بننے کے بعد بھی حلقے کو بری طرح نظرانداز کیا جا رہا ہے۔میرے خیال میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو دلوں کے وزیراعظم کی سیاست سے سبق لینا چاہیے اب وعدوں کی سیاست کے ادوار گزر گئے ہیں میاں نواز شریف نے وعدوں کی سیاست کی رزلٹ آپ کے سامنے ہے تین روز جی ٹی روڈ پر کتنے کچھ بندے اگٹھے کیے گئے؟ن لیگ کے گڑ حلقہ این اے 120 میں حاصل کی ہوئی برتری بھی بھلا کوئی برتری تھی؟وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو چائیے کہ خود کے وزیراعظم ہونے پر اب یقین کر لیں اور نادر موقع سے فائدہ اٹھائیں حلقے کی بہتری پر توجہ دیں عوامی رابطہ مہم کا آغاز کریں ورنہ وہ دن بھی دور نہیں کہ عوام آپ کی شاہانہ سیاست سے تنگ آکر عوامی عدالت میں آپکا فیصلہ بھی کر دیں۔
آپ ہی اپنی اداؤں پے ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی !!

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں