چوہدری محمد اشفاق
کسی بھی ایسے اخبار یا ویب سائٹ کے لیے جس کے قارئین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے اور وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہوں کہ ان کا پسندیدہ اخبار ہر شمارے میں کوئی نیا اور اہم مسئلہ اجاگر کرے گا کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو ہر طرح کے حالات سے با خبر رکھے ہر بار کوشش ہوتی ہے کہ اہم ترین مسائل کو اجاگر کیا جائے یوں تو تواتر سے ان مسائل کے بارے میں مضامین لکھے جا رہے ہیں اور ارباب اختیار کو بہترین مشورے بھی دئیے جا رئے ہیں اس وقت الیکشن 2018کے حوالے سے مسائل اور ممکنہ تبدیلیوں کو ذیادہ اہمیت حاصل ہے حلقہ بندیوں سے متعلق غور و فکر جاری ہے اور حکومت ابھی تک کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے جس وجہ سے الیکشن کمیشن بھی واضح پالیسی دکھانے سے قاصر ہے البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ پارلیمانی پارٹیوں نے حلقہ قومی اسمبلی کی آبادی کی تعداد بڑھانے پر اتفاق کیا ہے ۔جس کے تحت ہر حلقہ قومی اسمبلی7لاکھ کی آبادی پر مشتعمل ہو گا۔ اس حوالے سے این اے 52اور این اے50میں بہت ذیادہ تبدیلیاں ممکن ہیں اس طرح پنجاب بھر کے قومی اسمبلی کے حلقوں کی آبادی میں اضافہ سے 5جزل نشستیں کم ہو جائینگی جس وجہ سے تمام حلقوں کے بنیادی ڈھانچوں میں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔البتہ ضلع راولپنڈی کی ساتوں قومی اسمبلی کی سیٹیں برقرار ہیں گی مگر ان کے خدوخال میں بہت فرق پڑ جائے گا اور بہت سارے علاقے بھی ادھر ادھر ہو جائیں گئے این اے 50 سے 55 این اے 51‘56این اے 52‘ 57این اے 53‘ 58این اے 54 ‘ 59این اے 55‘ 60اوراین اے 56این اے 61بن جائے گا اوراس لحاظ سے جس طرح راولپنڈی کے دیگرحلقوں کے بنیادی ڈھانچے میں بہت سی غیر متوقع تبدیلیاں ہو جائیں گی اس طرح پارلیمانی پارٹیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر حلقہ کم از کم ساڑھے سات اور پونے آٹھ لاکھ کی آبادی پر مشتعمل ہو گا اس لخاظ سے اگر دیکھا جائے تو موجودہ این اے 50کی کل آبادی اس وقت تقریبا پونے چھ لاکھ کے لگ بھگ ہے جب اس حلقہ کی مطلوبہ تعداد کو پورا کیا جائے گا تو تحصیل کلر سیداں کا باقی حصہ جو این اے 50سے باہر ہے کو بھی اس حلقہ میں شامل کرنا بہت ضروری ہو جائے گا کیونکہ اس حلقہ کے ایک طرف کشمیر دوسری طرف اسلام آباد تیسری طرف تحصیل گوجرخان اور چوتھی طرف تحصیل کلر سیداں کا صرف تھوڑا سا حلقہ باقی رہ جاتا ہے جس کو بہت آسانی سے این اے 50کا حصہ نبایا جاسکتا ہے اس حلقہ کی تکمیل کے لیے مذید دو لاکھ کی آبادی کو اس میں شامل کرنا نہایت ضروری ہے تحصیل کلر سیداں کا 75فیصد علاقہ پہلے ہی مزکورہ حلقہ میں شامل سے اور بقایا 25فیصد کی آبادی پر اگر غور کی جائے تو وہ مطلوبہ تعدادپوری کرنے کے لیے بلکل فٹ آ رہی ہے اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ تحصیل کلر سیداں کے بقیہ حصے کو جو اس وقت این سے 52میں شامل ہے کو این اے 50میں شامل کر لیا جائے گا جس سے یہ حلقہ مکمل ہو جائے گا اس وقت تحصیل کلر سیداں کی سات یوسیزمنیاندہ، نلہ مسلماناں، دوبیرن کلاں ، بھلاکھرنصف، چوہا خالصہ، کنوہااور سموٹ اس حلقہ میں شامل ہیں جسے اب نئے فارمولے کے مطابق مکمل کرنے کے لیے بلدیہ کلر سیداں سمیت یوسیزگف، بشندوٹ اور غزن آباد کو بھی اس حلقے میں شامل کرنے کے امکان بڑھ گئے ہیں ۔ یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ 1970ء کے انتخابات میں بھی موجودہ تحصیل کلر سیداں کی تمام آبادیاں مری کے اس حلقے کا حصہ تھیں جب یہ حلقہ مکمل ہوجائے گا تو تحصیل مری اور کوٹلی ستیاں پر مشتعمل ایک صوبائی حلقہ اور تحصیل کہوٹہ اور کلر سیداں پر مشتعمل دوسرا صوبائی حلقہ تشکیل پائے گا جس کے بعد اس حلقہ میں کچھ ایسے لوگوں کا اضافہ ہو جائے گا جو اس حلقے میں بلکل نئے ہو ں گے ان کے لیے ایک دم سے اس حلقہ کے مدوجزر کو سمجھنا مشکل ہو گا۔دوسری طرف تحصیل کلر سیداں کے اکثر عوام اس بات کی خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ ان کا حلقہ جہاں این اے 50میں شامل ہوجانے سے کئی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں شاید ایک بہت بڑا فائدہ بھی حاصل ہوجائے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حلقہ میں شمولیت پر ان کو گیس کی سہولت حاصل ہوجائے گی جبکہ کچھ افراد اس تبدیلی کو نقصان اور زیادتی بھی قرار دے رہے ہیں بہر حال نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اس فیصلے کے بعد ہی کوئی صحیح صورتحال واضع ہوگی ۔
174