ضیاء الرحمن ضیا/مال و دولت سے محبت، عہدہ و منصب سے عشق۔ یہ وہ محبت ہے جو نہایت خطرناک ثابت ہوتی ہے اور جب یہ کسی معاشرے میں عام ہو جائے تو یہ معاشرے کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسی صورت میں جب کسی شخص کو عہدہ یا منصب حاصل ہو جائے تو وہ اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اسے اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا وہ اس کے ذریعے ہر غلط کام کرتا ہے، اپنے منصب کو بچانے اور اپنی دولت میں اضافے کے لیے وہ معاشرے کی تباہی و بربادی کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں یہی حالت نظر آتی ہے کہ جس شخص کو کوئی عہدہ یا منصب مل جائے وہ اسے طول دینے اور بچانے کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کرتا ہے اور کسی کے نقصان کی پرواہ نہیں کرتا۔ جس سے معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مال و دولت اور عہدہ و منصب کی محبت کو زیادہ خطرناک اور معاشرے کے لیے تباہ کن قرار دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں عہدہ منصب کے عشق میں مبتلا دو طرح کے طبقات ہیں۔ ایک طبقہ سیاستدانوں کا ہے اور دوسرا بیوروکریسی کا۔ان دونوں طبقات سے وابستہ اکثر افراد طاقت و منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور اپنے مال و دولت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پھر ان دونوں طبقات کا بھی اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو کرپٹ سیاستدان سے کرپٹ بیوروکریٹ زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے کہ سیاستدان تو مختصر سی مدت کے لیے عہدہ حاصل کرتے ہیں جو زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہوتی ہے، وہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں لیکن بیوروکریٹ تو پینتیس، چالیس سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں اور اس دوران ان کی ترقی ہوتی رہتی ہے۔ایک بیوروکریٹ کی سروس کے دوران کئی سیاستدان، وزیر، مشیر و اراکین اسمبلی آتے اور جاتے ہیں لیکن یہ ایک معینہ مدت تک اپنے عہدے پر براجمان رہتے ہیں۔ اس لیے وہ سیاستدانوں سے زیادہ اختیارات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاستدان براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں لہٰذا وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں اور انہیں آئندہ انتخابات میں بھی عوامی ردعمل کا خوف رہتا ہے کہ اگر عوام کو کارکردگی نہ دکھائی اور اپنے وعدے پورے نہ کیے تو آئندہ عوام کے ووٹوں سے محرومی ان کے عہدے سے محرومی کا باعث بن جائے گی۔ اس کے برعکس بیوروکریٹس کے انتخاب میں عوامی رائے یا ووٹوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور وہ
اپنی محنت قابلیت یا کہیں رشوت و سفارش کی بنا پر منتخب ہوتے ہیں اس لیے وہ عوام کے سامنے جواب دہ بھی نہیں ہوتے اور ان کی ایک ہی طویل مدت ہوتی ہے، ایک بار تقرری ہو گئی تو دوبارہ انہیں ساٹھ سال کی عمر تک عہدے سے محرومی کا خوف نہیں ہوتا اور ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اکثر دوبارہ تعیناتی کی امید نہیں ہوتی لہٰذا وہ بلا خوف و خطر اپنے عہدے و منصب کا غلط استعمال کرکے معاشرے کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔سیاستدانوں کومیڈیا وغیرہ کاسامنا بھی رہتا ہے لیکن اکثر بیوروکریٹس میڈیا کی نظروں سے بھی اوجھل رہتے ہیں لہٰذا انہیں کھل کر کھیلنے کا بھرپور موقع ملتا ہے اور اکثر اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔
ہماری ملکی تاریخ میں بیوروکریٹس کا حکومتیں بنانے، چلانے، چلنے دینے اورگرانے میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔ کئی بار سیاستدان بیوروکریٹس کے سامنے بے بس نظر آئے کیونکہ بیوروکریٹس اکثر سیاستدانوں سے زیادہ مہارت و تجربہ رکھتے ہیں لہٰذا وزراء ان کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اصل حکومت بیوروکریسی کی ہوتی ہے۔ جب یہ اتنی طاقت رکھتے ہیں تو کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے اور ان کے خلاف کاروائی کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتا۔
چند روز قبل گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے بیورو کریٹس کے خلاف ایک سخت بیان دیا جس میں انہوں نے کہا کہ بیوروکریسی صاف پانی کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالتی ہے، بیوروکریسی میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ان سے فائنل میٹنگ کروں گا اگر وہ راہ راست پر نہ آئے تو اگلے ہفتے پریس کانفرنس میں ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کروں گا۔ یہ تو اس شخص نے کہا ہے جسے اگر بے اختیار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس تقریب میں بھی انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک آرڈیننس لائیں گے، یعنی ان کی مشاورت کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہاں کچھ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں کالی بھیڑوں کو بے نقاب کروں گا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کالی بھیڑوں سے واقف ہیں اگر وہ اتنی واقفیت رکھتے ہیں تو پھر ابھی تک انہیں ڈھیل کیوں دے رکھی ہے، انہیں بے نقاب کیوں نہیں کیا؟ ان کی کارکردگی کو جاننے کے باوجود ان کے خلاف کوئی کاروائی کیوں نہیں کی؟ کیا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ یہ اچھی طرح محکموں کو تباہ کر دیں پھر ان کے خلاف کاروائی کریں گے؟ جب انہوں نے ان کالی بھیڑوں کی طرف اشارہ کر ہی دیا ہے تو اب ضروری ہے کہ وہ انہیں بے نقاب بھی کریں اور عوام کو بتائیں کہ بیوروکریسی میں کیسے کیسے کرپٹ اور بے ضمیر لوگ موجود ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کر کے ان سے عوام کی جان چھڑائیں۔ انہیں ایسی سزا دلائیں کہ وہ دوسروں کے لیے نشان عبرت بن جائیں۔ عوام نے ان کالی بھیڑوں کے بہت ستم سہے ہیں لہٰذا اب ان کی نقاب کشائی بہت ضروری ہے۔
233