بابر اورنگزیب چوہدری/حلقہ این اے 59 ایک بار پھر سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے اسکی وجہ جہاں پہلے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ہوا کرتے تھے انکا دبنگ سٹائل اور جارحانہ انداز ہوا کرتا تھا اب انکی جگہ ایک دھیمے مزاج اور سادہ لوح شخصیت غلام سرور خان نے لے لی ہے جو کہ وفاقی وزیر برائے ایوی ایشن ہے لیکن حالیہ خبروں کی زینت بننا کوئی نیک شگون نہیں نہ ہی غلام سرور خان کے لیے اور نہ ہی انکے ووٹرز کے لیے کیونکہ انکے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کی انکوائری کے لیے نیب متحرک ہوگیا ہے اور اسی سلسلے میں نیب نے نوٹس بھی جاری کیے ہیں جن کے مطابق انکے اور انکے بچوں کی کتنی جائیداد ہے اور کدہر سے آئی ہے تمام تر تفصیلات مانگی گئیں ہیں سننے میں آیا ہے کہ راولپنڈی میں یہ صرف واحد شخصیت نہیں بلکہ اور بھی بہت سی شخصیات کے خلاف نیب متحرک ہوا ہے اور اس نے نوٹس بجھوائے ہیں غلام سرور خان اسکی انکوائری اور کیس کا سامنے کرنے کو تیار کھڑے ہیں انھوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر بھی کھڑے ہوکر اسکا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ بالکل تیار ہیں نیب آزادانہ اور شفاف انکوائری کرے میں خود کو پیش کرتا ہوں اس سے پہلے بھی غلام سرور خان ایک کیس میں بری ہوچکے ہیں جی ہاں جعلی ڈگری کیس میں اس کیس میں انکے مخالفین انکے سیاسی حریف سمیت انکی اپنی جماعت کے کچھ لوگ بھی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ فیصلہ انکے خلاف آئے گا اور سیاسی پنڈتوں سمیت سب ہی یہ تجزیہ دے رہے تھے کہ فیصلہ انکے خلاف آنے والا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے نااہل ہوکر سیاست سے باہر ہوجائیں گے اور پھر اس طرح دوبارہ اس حلقے میں الیکشن ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس وقت سب کی امیدوں پر پانی پھر گیا جب جعلی ڈگری کیس کا فیصلہ غلام سرور خان کے حق میں آگیا اور انکو اس مقدمے سے بری کر دیا گیا اور وہ سرخرو ہوئے انکی ڈگری کو اصلی قرار دے دیا گیا اب اسکے کچھ عرصے بعد ہی دوبارہ سے انکے خلاف ایک اور کیس کا سامنے آنا اب یہ کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات اور زمینوں کا سامنے آیا ہے اور وہ بھی اس وقت جب انکی گورنمنٹ ہے اور وہ خود بھی وفاقی وزیر ہے تو کیا ایسے میں انکے خلاف کاروائی ہوگی جو بظاہر ہوتی ہوئی نظر نیں آرہی کیونکہ اس سے قبل کئی انکوائری اور کیسوں کا تجربہ اس حکومت کا سامنے ہے ادوایات کا سکینڈل ہو یا گیس کے بلوں میں اضافہ اس کے بعد چینی اور آٹا بحران ہو یا پھر انڈیا سے ادوایات مہنگے داموں برآمد کرنا ان سب پر تاحال کوئی کاروائی نیں کی گئی نہ ہی کئی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے جن پر انکوائری ہو بھی رہی تو وہ التوا کا شکار ہے اور کئی ایک کا تو اب ذکر بھی نیں رہا کہ یہ بھی کوئی سکینڈل تھا ایسے میں کیا ہونے جارہے ہے کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز اور مقامی قائدین انکے ساتھ کھڑے دکھائی دے رہے ہیں آئے روز کسی نہ کسی مقامی نمائندے کا اخبار میں بیان انکے حق میں آیا ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی انکے ورکر انکے حق میں نعرے لگاتے دکھائی دے رہے ہیں اب فیصلہ کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر اس سارے معاملے میں ایک بات سامنے آئی ہے کہ ووٹرز خواہ وہ کسی بھی جماعت ہی کہ کیوں نہ ہوں اپنے لیڈر کو جیسے بھی حالات کیوں نہ ہو تنہا نیں چھوڑتے پاکستان تحریک انصاف جو مسلم لیگ نواز کو چور ڈاکو اور انکے رہنماوں کو کن کن ناموں اور انکے ووٹرز اور ورکرز کو پٹواری اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے محض اس لیے نوازتی تھی کہ یہ لوگ ان چوروں اور ناجائز جائیدادیں رکھنے والوں کو سپورٹ کرتے ہیں انکے خلاف کچھ سننا نیں چاہتے ایسے میں اب پاکستان تحریک انصاف کے ووٹرز کا خود ایسا کرنا حالانکہ غلام سرور خان پر کچھ بھی ثابت نیں ہوا ابھی تو صرف نوٹس تک آئے ہیں آگے کیا ہونا کیا ہوگا یہ کس نے جانا ایسے میں انکے ووٹرز اور مقامی قائدین کا انکے حق میں کھل کر سامنے آنا اور سوشل میڈیا اور اخبارات میں بیان دے کر انکی بے گناہی کا دفاع کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
192