آصف شاہ ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
ترقیاتی کام عوام کو بہم پہچانا ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن وطن عزیز کی سیاست میں عوام کی خدمت کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے یہاں کام شروع کرنے سے پہلے ہی اس میں سے اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کی مہم شروع کر دی جاتی ہے جو کام ختم ہونے تک زور شور تک جاری رہتا ہے کوئی 10%کوئی 15%وصول کرتا ہے اور یہ سلسلہ بدقسمتی سے ہر منصوبہ میں چلتا ہے یوسی ساگری این اے 52 کا حصہ ہے اور چوہدری نثار علی کے اعلان کردہ گرانٹس سے یہاں پر گلیات روڈز اور نالوں کی تعمیر کا کام جاری ہواتھااس یوسی میں روڈز گلیات اور نالوں کی مد میں کم بیش5 کروڑسے زائد کے فنڈز جاری ہوئے لیکن اس کو عوام کی بدقسمتی کہیے کہ اس کے صحیح ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے
اس کے پیچھے کیا محرکات تھے اور کون کون لوگ ہیں یہ ایک الگ معاملہ ہے لیکن اس کام کو پایہ تکمیل پہچانے کی ذمہ داری ا جس ٹھیکدار کے سر تھی اس نے اس کام کی تعمیر میں ناقص میٹریل کا استعمال کیا اور اس کو کسی نے روکنے کی کوشش نہ کی ایک بار چیئرمین یوسی ساگری راجہ شہزاد یونس نے اس کے خلاف محکمانہ درخواست دی اور اس کے خلاف انکوائری کاحکم جاری کروایا گیا اور اس کی رپورٹ20 دن کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدائیت کی گئی لیکن دو ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس پر کوئی کام نہ ہوا اور بااثر ٹھیکدار اپنی من مرضی سے کام کرتا رہا بلکہ زرائع سے پتہ چلا کہ چیئرمین یوسی ساگری کو ہتھ ہولا رکھنے کو کہا گیا جس پر کرپٹ ٹھیکدار بچ اس ٹھیکدار کے پاس یوسی بشنڈوٹ کا بھی ٹھیکہ تھا لیکن جب کام کی باری آئی تو یوسی چیئرمین زبیر کیانی نے اس کے خلاف چوہدری نثار علی کے ساتھ ساتھ محکمے کو بھی لکھا کہ متعلقہ ٹھیکدار میں اس کام کو کرنے کی قابلیت نہیں ہے اور میں اپنی یوسی میں ایسے شخص سے کام کروانا گوارا نہیں سمجھتا جو ایک طرف سے کام کو شروع کرے تو پایہ تکمیل تک پہنچے تک پچھلا کام زمین بوس ہو چکا ہو اس پر اس سے یوسی بشنڈوٹ کا ٹھیکہ کینسل کر دیا گیا یہ شاید یوسی ساگری کے عوام کی قسمت تھی کہ چوہدری نثار علی خان نے اس پر ایکشن لیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں سابقہ ایکسین شکور سابق چیف انجینئر عباس،سابق ایس ڈی او کے ساتھ ان کے معاون خصوصی راجہ لطیف کے ساتھ ساتھ حاضر سروس پنجاب ہائی وے کے موجودہ سینئر افسران کو اس کمیٹی کا ممبران بنایا گیاعینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی کے ممبران نے گزشتہ روز یوسی ساگری کے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا تو وہ حیران پریشان ہوئے کہ کیا اس کام کی کوئی نگرائی نہیں کی گی جس پر کمیٹی اراکین نے فی الفور چیئرمین یوسی راجہ شہزاد یونس کو بلایا لیکن ان کا نمبر اس وقت تک بند رہا جب تک کمیٹی اراکین ساگری میں موجود رہے پھر معاون خصوصی شیخ ساجدالرحمان کو بلایا گیا تو ان کا نمبر بھی بند ملا اور چیئرمین یوسی بشنڈوٹ زبیر کیانی کو کال کیا گیا جنہوں نے لگ بگ دو گھنٹے سے زائدوقت لگا کر ٹھیکیدار کے ترقیاتی کاموں کے نام پر ساگری کی عوام سے کیے گے مذاق کا سارا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا اور وروات کلر سیداں روڈ ساگری جوڑ سے لیکر یوسی بشنڈوٹ بھاٹہ رود تک سروے کیا گیا عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے ارکان حیران پریشان تھے کہ اتنے عرصہ کروڑوں روپوں کو اللوں تللوں میں خرچ کیا گیا نہ ہی کام صحیح کیا گیا اور نہ ہی اس پر استعمال کیا گیا میٹریل کا معیار اس قابل تھا اس موقع پر کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سفارشات میں متعلقہ اور زمہ داران کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کریں گے تو دوسری طرف عوام علاقہ نے چیئرمین یوسی بشنڈوٹ زبیر کیانی کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے پارٹی کے اندر رہتے ہوئے کرپٹ ٹھیکدار اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف کھل کر میدان عمل میں آئے اورایسے افراد کے خلاف جو عوام کا پیسہ لوٹنے میں پیش پیش ہوں ان کو کیفر کردار تک پہچانا یقیناًقابل تحسین ہے اس موقع پر ایک بات جو یقیناًقابل افسوس ہے وہ ہے چیئرمین یوسی ساگری راجہ شہزاد یونس اور معاون خصوصی شیخ ساجدالرحمان کا جن کام تو یہ بنتا تھا کہ وہ اس کام میں پیش پیش ہوکر اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہچاتے کیونکہ یہ ان کی یوسی کی عوام کا مسلہ تھا اور یوسی ساگری ہی ان کی پہچان ہے لیکن انہوں نے اس کار خیر میں کوئی حصہ نی لیا بلکہ اس دن دونوں عوامی نمائندوں کے موبائل نمبر ہی بند رہے زرائع کا کہنا تھا اس کا شائید بڑی وجہ یہ تھی کہ ٹھیکدار اور اس کے ساتھیوں کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنا تھی کہ ہم اس کام میں ان کا کوئی ہاتھ نہ ہے بلکہ اس کے پیچھے چیئرمین یوسی بشنڈوٹ کا ہاتھ ہے تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کیا منتخب نمائندوں کا یہ رویہ ٹھیک ہے یاوہ لوگ جن پر عوام آنکھیں بند کر کے یقین کرتے ہیں اور وہ عوام کو لولی پاپ دے رہے ہیں یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چوہدری نثار علی خان نے ایسے کرپٹ لوگوں کو ہاتھ ڈالا ہے اور میڈیا رپورٹ اور عوام کی آواز پرتحقیقاتی کمیٹی بناکر اصل کرداروں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے تو کیا اس میں ملوث افراد کو پوچھا جائے گا یا پھر مٹی پاو پالیسی کو اختیار کیا جائے گا اس کا ساگری کی عوام کو انتظار رہے گا
217