172

مولوی

چوہدری محمد اشفاق

لفظ مولوی محض پانچ لفظوں کا مجموعہ ہے لیکن اگر ان پانچ لفظوں پر غور کیا جائے تو یہ سارے الفا ظ ایک ایسے مجموعے کی تکمیل ہیں جس کے اندر علم کے خزانے موجود ہیں علم کے ایسے سمندر جن کا دور دور تک کوئی کنارہ نظر نہیں آتا ہے اسی خزانے سے ہمارے لیے ہدایت ورہنمائی کے چشمے نکلتے ہیں مولوی ہی کے زریعے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات ہم تک پہنچتے ہیں مولوی ہمارے معاشرے کا نہایت ہی اہم اور ادب و احترام والا شخص سمجھا جاتا ہے اس کی عزت کرنا ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے مولوی قوم کا معمار ہوتا ہے جسکے زریعے ہماری دینی بنیاد شروع ہوتی ہے بچہ جب چھوٹا سا ہوتا ہے تو اسے دنیاوی تعلیم کیلئے سکول جبکہ دین سکھانے کیلئے مولوی کے سپرد کر دیا جاتا ہے جہاں پر اُسے اسلام کے بنیادی اصول نماز اور قرآن پاک پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں جس سے بچے کی بنیاد کی ابتدا ہوتی ہے امام اپنے ضرائض نہایت ہی دیانتداری کیساتھ ادا کرتا ہیسخت ٹھنڈی راتوں میں جب بستر سے منہ باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے لیکن مولوی اپنے مقرر وقت پر اٹھ کر پہلے اذان اور بعدا میں جماعت کے ساتھ سب کو نما ز پڑھاتا ہے اسکے بعد نمازی اپنے گھرو ں کوواپس لوٹ جاتے ہیں لیکن امام کا کام ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ چھوٹے بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے میں شروع ہو جاتا ہے دن میں پانچ مرتبہ وقت پر اذان اور نماز کا اہتمام کرنا امام ہی یہ مقدس فریضہ سر انجام دیتا ہے اور مجال کہ ایک منٹ بھی ادھر اُدھر ہوجائے ہر جگہ دیر سویر ہوجاتی ہے لیکن مولوی کا شیڈول جو پورے دن اوررات پر مشتمل ہوتا ہے ایک منٹ بھی دیر نہیں ہونے دیتاہے مسجد کی صفائی کا خیال رکھنا بھی مولوی کی ذمہ داری بن گئی ہے کبھی کسی شخص نے اس طرف دھیان دیا کہ یہ اتنے سارے کام چپکے سے کیسے ہو جاتے ہیں یہ خود بخود نہیں ہوتے بلکہ امام مسجد ان تمام کاموں پر پہرہ دے رہا ہوتا ہے لیکن ہوتا یہ کہ بجائے مولوی کی تعریف کیجائے بلکہ جب سب اکھٹے ہوتے ہیں تو کردار کشی بھی مولوی ہی کی جاتی ہیں مسجد میں نمازیوں کیلئے پانی کاانتظام ،غسلخانوں کی صفائی صفوں کی درستگی ہر طرف مسجد کے دیگر معاملات کا خیال مولوی ہی کرتا ہے اگر مولوی نماز کیلئے چند سیکنڈ بھی لیٹ ہو جائے تو برا بھلا بھی سنتا ہے اور کسی کو کوئی گلہ شکوہ تک بھی نہیں کرتا ہے سب کچھ خاموشی سے سہتا جاتا ہے ایسے افراد جن کے گھر والے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ یہ شخص نماز کے بہانے آدھے گھنٹے کیلئے گھر سے نکلے اور ہم سکھ کا سانس لیں ایسا شخص بھی مسجد میں جاکرمولوی کا افسر بن جاتا ہے مگر مولوی اس کی باتوں پر بھی ناراض نہیں ہوتا ہے حالانکہ مولوی کویہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی گھر میں کیا پوزیشن ہے ہم جس کے پیچھے نماز جنازہ پڑھتے ہیں جسکی وجہ سے ہماے نکاح ہوتے ہیں ہم اسکو صرف گاؤں کا ایک معمولی ملازم تصور کرتے ہیں جبکہ مولوی کا ایک بہت بڑا رتبہ ہے جسکو سمجھنے سے ابھی تک ہم قاصر ہیں بیماری میں بھی اس کی چھٹی نہیں ملتی ہے اور وہ اسی حالت میں نمازیں پڑھا کر خوش نظر آتا ہے اور ایسی باتیں جنکو سن کر انسان کا خون کھول اٹھتا ہے لیکن مولوی بڑے صبر سے کام لے کہ برداشت کرتا ہے اورپھر بھی خوش دیکھائی دیتا ہے ہم اپنے کاموں سے چھٹی کرنا فخر سمجھتے ہیں لیکن ہم اپنی مسجد کے امام کی ایک دن کی چھٹی بھی برداشت نہیں کرسکتے ہیں اگر عید والے دن کوئی ہم سے کہے کہ آپکو دوہزار روپے ایک دن کی مزدوری دی جائے گی تو آج آپ کام کریں لیکن ہم کسی صورت یہ آفر قبول کرنے کو تیار نہیں ہونگے لیکن مولوی اس دن بھی بغیر کسی اضافی سہولت کے ہمیں نمازیں پڑھا رہا ہو تا ہے اور چھٹی کا نام بھی نہیں لیتا ہے اور کام عام دنوں سے زیادہ ہوتا ہے مولوی سے مخالفت کسی ایک کی ہوتی ہے لیکن پورا گاؤں اس ایک شخص کی ہاں میں ہاں ملاتے مولوی کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور اس کو نکالنے میں اور گھر خالی کروانے میں زرہ دیر نہیں لگاتے ہیں ہم کسی ایک گندے ذہن کی خاطر پوری مسجد کے نظام کی تباہی کیلئے تیار ہوجاتے ہیں جومولوی چھٹی کا نام تک نہیں لیتا ہے اور جس دن ہماری چھٹی ہوتی ہے اس دن اس کاکام اور بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ بات انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ جومولوی ہمارے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے اپنے رشتہ داروں کو بھول کر ہمارے ساتھ رشتہ جوڑے ہوئے ہے نہ بیماری کی پرواہ نہ اپنے کسی قریبی عزیز کی خوشی غمی کی پرواہ کرنے والے کی خدمات کا صلہ ہم بہت ہی تھوڑا دے رہے ہیں اتنی زیادہ مشقت کرنے والے مولوی کی اجرت نہایت ہی کم ہے صرف پانچ سے دس ہزار روپے تنخواہ اس مولوی کو دی جا رہی ہے جو ہمیں دین سکھا رہا ہے جو دن میں پانچ مرتبہ ہمارے آگے کھڑے ہو کر ہمیں اپنے رب کی طرف متوجہ کرتا ہے کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ ہمارے گھروں کے اخراجات تیس چالیس ہزار تک جا چکے ہیں اس مولوی کے گھر کی حالت کیا ہوگی جسکو ہم پانچ دس ہزار پر رکھے ہوئے ہیں حالانکہ اگر سب سے زیادہ اجرت بنتی ہے تو وہ امام کی جو چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر موجو د رہتا ہے اور ہماری نہ سننے والی بھی سنتا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ امام کو اجرت زیادہ سے زیادہ دینی چاہیے نہیں تو کم از کم اسکی خدمات کے بدلے ہماری آوازیں اسکے سامنے اونچی نہ ہوں ہماری گردنیں اسکے سامنے جھکی ہوئی ہونی چاہیں ہمیں اپنے امام کی عزت کرنی چاہیے اسکو عام ملازم نہ سمجھا جائے ہمیں اسکے ساتھ عاجزی سے پیش آنا چاہیے ہمارے دل اس سے متعلق بغض سے پاک ہونا چاہیں اسکی ضروریات بھی پوری کرنا چاہیں ہم امام کو اس کا اصل مقام دے کر ہی کامیابی کی طرف جاسکتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں