132

این اے باون میں تحریک انصاف کی مقبولیت ؟

چوہدری محمد اشفاق‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
چوک پنڈوڑی تحصیل کلرسیداں کا ایک اہم شہر تصور کیا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک سابق ایم پی اے شوکت محمود بھٹی اور حلقہ پی پی پانچ کے موجودہ ایم پی اے قمرالسلام راجہ کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے اور سابق ایم پی اے حلقہ میں ترقیاتی کاموں کے بانی چوہدری محمد خالد مرحوم کا سسرال بھی یہی ہے یہاں کہ زیادہ تر لوگ ن لیگ سے وابستگی رکھتے ہیں ہر الیکشن میں نتائج ن لیگ کے حق میں ہی آتے ہیں موجودہ ایم پی اے قمرالسلام راجہ تقریبا ہر اتوار کو اپنے دفتر میں بیٹھ کر عوام کے مسائل سنتے ہیں اور ان کو حل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں دوسری طرف وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ا؂؂؂س علاقہ میں ترقیاتی کاموں کے جال بچھا رکھے ہیں اور جس طرف بھی دیکھا جائے کہیں نہ کہیں ان کی خدمات کے اثرات ضرور ملتے ہیں اور کوئی بھی گاؤں یا ڈہوک ایسی نہیں ہے جس میں ان کی طرف سے ترقیاتی کام نہ کئے گئے ہوں ان حالات کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہیے کہ ن لیگ کے علاوہ کس بھی دوسری سیاسی جماعت کو جو حکومت اور خاص طور پر ن لیگ کی سخت مخالف سیاسی جماعت جانی جاتی ہے نے اور تحصیل راولپنڈی پر مشتمل حلقہ این اے باون میں پی ٹی آئی دن بدن اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی جارہی ہے آئے روز کوئی نہ کوئی سیاسی گروپ تحریک انصاف میں شامل ہو رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف مضبوط ہو رہی ہے جمعہ کو پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے چوک پنڈوڑی کے بالکل قریب یوسی گف کے گاؤن بھکڑال میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جس کا اہتمام بھکڑال گاؤں کے ہی رہائشی نوجوان راجہ مبشر نے کیا تھا اس جلسہ کی کامیابی یا ناکامی کی طرف ایک نظر دوڑاتے ہیں جلسہ میں کل پندرہ سو نشستوں کا اہتمام تھا تمام کرسیاں بھری پڑی تھیں ان کے علاوہ کم و بیش ایک ہزار کے لگ بھگ افراد پنڈال کے دائیں بائیں موجود تھے ایک اندازے کے مطابق کل شرکاء کی تعداد تقریبا پچیس سو کے قریب تھی جس میں ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ صرف تماشائی یا شوقیہ طور پر جانیوالوں کی تھی اور پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد صرف ایک ہزار کے لگ بھگ ہے توقع یہ کی جارہی ہے تھی کہ اس جلسہ میں باہر سے لوگ زیادہ آئیں گے اور مقامی افراد کی تعداد بہت کم ہوگی لیکن ایسا نہ ہوا باہر سے بھی لوگ آئے اور مقامی لوگوں نے بھی بھرپور شرکت کی ایک اہم بات جو واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں اس جلسہ سے موضع بھکڑال کے انتخابی نتائج پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا اور یہاں پر پی ٹی آئی کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکے گی جس کی توقع کی جارہی ہے اکثریت پھر بھی ن لیگ کی ہی برقرار رہے گی اس جلسہ سے اتنا ضرور ممکن ہوا ہے کہ سیاسی فضا میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے اور تحریک انصاف کی پالیسیوں سے اتفاق کرتے ہوئے بہت سے افراد نے شمولیت اعلانات کیے ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ ایک فہم و فراست رکھنے والے ایم پی اے کے گاؤں میں ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے ہیں معاملہ جو بھی تھا جیسا بھی تھا اگر دانش مندی سے کام لیا جاتا تو ان حالات پر قابو پایا جاسکتا تھا اس سارے معاملے میں جہاں دیگر خرابیاں تھیں وہاں پر پولیس نے بھی بہت بڑا غیر قانی کام کیا تھا جس پر کسی نے بھی دھیان دینے کی کوشش نہیں کی ہے اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس کیس میں کچھ افراد قصور وار تھے لیکن کچھ بالکل بے قصور بھی تھے اس کے باوجود ان کو بھی نامزد کیا گیا تھا اس پورے کیس میں بہت سی خامیاں موجود تھیں جن کی تحقیقات ہونا بہت ضروری تھا بہرحال جیسے بھی تھا ان حالات کو کنٹرول کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ کلرسیداں کی فضا سیاسی طور پر ن لیگ کے خلاف جارہی ہے پی پی پانچ کے دیگر علاقوں میں بھی پی ٹی آئی کو پذیرائی مل رہی ہے جیسا کہ موہڑہ پھڈیال ،ساگر ی اور دیگر کئی موضع جات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر چکی ہے اور بہت سی جگہوں پر ابھی تک منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ن لیگی قائدین مخلص کارکنوں کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہے اورکئی کو آگے لایا جارہا ہے جن کا مفاد پرستی کے سوا کوئی اور مقصد ہی نہیں ہے۔ اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام میں پذیر حاصل نہ ہونا مخلص ورکر ز کے بغیر کامیابی حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ 2002میں چوہدری نثار جب اس علاقہ میں آئے تو یہ ان کے لیے نیا علاقہ تھا اور ن لیگ کا ووٹ بنک پہلے موجود تھاجس کے باعث چوہدری نثار علیخان جیت گئے تھے۔ لیکن ان کے ایم پی اے راجہ انور عوام میں مضبوط جڑیں نہ ہونے کی وجہ سے ہار گئے تھے۔ پھر 2008میں جب جنرل الیکشن ہوئے توکھڑپینچ ن لیگ کے مخالف تھے لیکن ورکر ز ن لیگ کے ساتھ مخلص تھے جس وجہ سے ن لیگ کی کامیابی ممکن ہوئی تھی۔ 2013کے جنرل الیکشن میں کھڑپینچ اور ورکرز دونوں ن لیگ کے ساتھ تھے2018جنرل الیکشن ایسے ہوں گے کہ ن لیگی قیادت کی طرف سے ترقیاتی کاموں کی بہار ہو گی کھڑپینچ بھی ساتھ ہو ں گے لیکن نظریاتی کارکن ساتھ نہیں ہوں گے اور خاموش مخالفت کریں گے۔ جس سے ن لیگ کو بہت نقصان ہوگا۔ کیونکہ عوام علاقہ کا یہ مطالبہ دن بدن زور پکر تا جا رہا ہے۔ کہ اُن کی اپنے لیڈران سے ڈائریکٹ اپروچ ہونا چاہیے نہ کہ اُن کو صرف چند افراد مرہون منت کیا جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں