حلقہ57 میں امیدواروں انتخابی مہم عروج پرپہنچ گئی

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
این اے 57 جومری سے شروع ہوکر یوسی بگا شیخان تک جا پہنچتا ہے بلاشبہ یہ قومی اسمبلی کا ایک بہت بڑا حلقہ ہے اگر حلقے کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ انتہائی پسماندہ ہے جس کی بڑی وجہ اس کا بیشترعلاقہ پہاڑی اور دشوارگزار حصوں پر مشتمل ہے ،ضلع راولپنڈی کی چار تحصیلیں جن میں تحصیل کلر سیداں تحصیل کہوٹہ تحصیل مری اور تحصیل کوٹلی ستیاں شامل ہے پر مشتمل تھا لیکن اب اس میں قانو گوئی ساگری کو شامل کر کے اس کی آبادی کو مکمل کیا گیا اس کی تحصیلوں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تحصیل کلرسیداں ہے جہاں ترقیاتی کاموں کا گراف سب سے اونچا ہے جی ٹی روڈ سے دو رویہ سڑک ایک بڑا ہسپتال کی بڑے کالجیز اور دیگر سہولیات کلرسیداں کے عوام کو دستیاب ہے جبکہ دوسری طرف تحصیل کہوٹہ تحصیل کوٹلی ستیاں اور تحصیل مری کی عوام ان سہولیات زندگی سے محروم نظر آتے ہیں اگر اس حلقہ میں سیاسی حوالہ سے بات کی جائے تو اس میں ہر بار مقابلہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی رہاہے اور زیادہ تر کامیابی کا سہراشاہد خاقان عباسی کے سر سجا ہے زیادہ تر جہاں پر مسلم لیگ کی حکمرانی رہی ہے وہ مسلم لیگ چاہے کسی بھی صورت میں ہواب ایک نظر یہاں کی موجودہ سیاسی صورتحال پر اس حلقہ سے تحریک انصاف کے امیدوار صداقت عباسی ہیں موجودہ حالات کے پیش نظرعوام کا رجحان تحریک انصاف کی جانب ہے لیکن اگر سیاسی نگاہ سے اس کو دیکھا جائے تو یوسی سطح پر تحریک انصاف کی چپقلش ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یوسی لیول پر ٹکڑوں میں تقسیم تحریک انصاف کے وہ لوگ بھی سیاسی لیڈر بننے کے چکروں میں ہیں جن کو اپنی یوسی کا مکمل پتہ نہیں ہے دوسری جانب اسی کھینچا تانی کے باعث صداقت عباسی ایک یوسی میں بار با میٹنگز کرنے پر مجبور ہیں یوسی بگا کے علاوہ کسی یوسی میں تحریک انصاف ان کا ایک بڑا جلسہ تک منقعد نہ کروا سکی ہے قانون گوئی ساگری میں تحریک انصاف کی موجودہ حالت جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق والی ہے ،اگر کلر سیداں کی بات کی جائے تو ملک سہیل اشرف اس وقت پارٹی کے لیے ایک لیڈنگ رول اور حثیت سے کام کر رہے ہیں پارٹی میں موجود کچھ لوگوں نے ملک سہیل اشرف کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے سیاسی بصیرت سے ان کی چال ان پر ہی الٹ دی اس حلقہ میں پیپلز پارٹی نے مہرین انور راجہ کو ٹکٹ دیا ہے پیپلز پارٹی کی طرف سے مہرین انور راجہ جو کہ سابق وفاقی وزیر بھی رہ چکی ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ عہدیدار بھی ہیں اس سے پہلے اس حلقہ میں آصف شفیق ستی الیکشن کے حوال سے کمپین کر رہے تھے لیکن پارٹی نے ٹکٹ مہرین انور راجہ کو دے دیا گوکہ ملکی حالت میں پیپلز پارٹی کی کیفیت اس طرح کی نہیں ہے کہ وہ کوئی بڑا اپ سیٹ کر سکے لیکن اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی ایک بڑی تعداد نوجود ہے اگر مہرین انور راجہ جو کی پرانی سیاسی کارکن ہیں ان کو پارٹی کی جیت کے لیے جوش پیدا کر لیتی ہیں تو یقیناًوہ مخالفین کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے عرصہ دراز سے یہاں سے شا ہد خاقان عباسی کو ٹکٹ دیا جاتا ہے شاہد خاقان عباسی کی ایک بہت بڑی برادری یہاں پر موجود ہے یہی وجہ ہے کہ وہ یہاں سے کی الیکشن جیت چکے ہیں مسلم لیگ نون کی حکومت میں ان کو ایک کلیدی کردار حاصل رہا ہے سابق وفاقی وزیر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے کلیدی عہدے وزیراعظم پاکستان بننے کا بھی اعزاز حاصل ہوا ہے اس حلقہ میں ہونے والی بڑی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے اب کی بار بورڈ بینک تقسیم ہو تا نظر آرہا ہے ،دوسرا اس حلقہ سے اس وقت تحریک لبیک پاکستان کی امیدواران بھی ایک پاور کے ساتھ موجود ہیں اگر وہ بڑی سیٹ پر نہیں تو پی پی کی سیٹ پر کوئی بھی اپ سیٹ کر سکتے ہیں جس کی وجہ سے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا ہے بعد کی جائیں اگر پارٹی پوزیشن کی بات کی جائے تو اس وقت کوئی بھی پارٹی واضع اکثریت کے ساتھ نظر نہیں آتی ہے اس حلقہ کی بڑی سیٹ کے لیے تمام پارٹیوں کو بھر پور محنت کرنا ہو گی اب ایک نظر پی پی7پر اور تحریک انصاف کی جانب سے pp7سے غلام مرتضی ستی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ نون کے راجہ محمد علی میدان میں ہے راجہ محمد علی کی بار جہاں سے جیت چکے ہیں و سابق مشیر وزیراعلی پنجاب رہ چکے ہیں جبکہ ان کے والد پاکستان مسلم لیگ نون کے اہم رہنما اور چیئرمین مسلم لیگ نون ہیں لیکن شاہد خاقان عباسی پی پی7 پر راجہ صغیر آف مٹور کو سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ راجہ محمدعلی بڑی سیٹ پر شیر خاقان عباسی کا ساتھ دینے کے بجائے دوسری جماعت کے امیدواروں کو ترجیح دے رہے ہیں یہ سیاسی چپقلش پچھلے کی الیکشن میں بھی سامنے آچکی ہے سابق دور میں بھی شاید خاقان عباسی نے راجہ صغیر احمد کو سپورٹ کیا تھا جس کی وجہ سے صغیر احمد بہت کم مارجن سے محمد علی زئی ہار گئے تھے دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف اگر تمام اختلافات بھلا کر کوشش کرتی ہے توپی پی7 کی سیٹ جیت سکتی ہے اگر پارٹی پوزیشن کو سامنے رکھا جائے توایک ملا جلا رجحان سامنے آرہا ہے جیت کا سہرا کس کے سر سجتا ہے اس کے لیے 25 جولائی کا انتظار کرنا پڑے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں