آصف شاہ‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز بھی حرف آخر نہیں ہوتی کل کے مخالف آج کے دوست بنے نظر آتے ہیں سیاست میں موجود رہنے والے لیڈر اپنے حلقہ کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ملکی سیاست میں اس وقت کیا چل رہا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن ملکی سیاست کو ایک طرف رکھ کر ہم ایک نظر این اے باون کی سیاست پر ڈالتے ہیں یہاں سیاست کا اپنا ایک سٹائل ہے اور اس میں ہونے والی تبدیلیوں کی بازگشت ملکی سطح پر سنائی دیتی ہے اس کی سب سے بڑی مثال گزشتہ دنوں میاں نواز شریف کے قافلے کا استقبال کے حوالہ سے اس حلقہ کو خاصی اہمیت دی جاتی رہی کیونکہ روات چوہدری نثار علی خان کا حلقہ ہے اور مسلم لیگ کے حلقوں میں یہ سب سے زیادہ سیف(محفوظ) حلقوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں ملکی سیاست کروٹیں لے رہی ہے وہاں اس حلقہ کی سیاست میں بھی آہستہ آہستہ تبدیلیاں محسوس ہو رہی ہیں اس ک�آغاز گزشتہ دنوں 14اگست کی تقریبات میں نظر آیا ہے جہاں سیاسی افق سے لمبے عرصہ تک غائب رہنے والے شوکت بھٹی ایک بار پھربھر پور طریقے سے سیاسی منظر نامے پر ابھرے کر سامنے آئے اور انہوں نے میاں نواز شریف کی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی اور وہ چوہدری تنویر کے ساتھ ساتھ رہے اس سے ایک بات سامنے آگئی کہ وہ اس حلقہ میں موجود ہیں اور جو خبریں ن لیگ کے اندر سے آرہی ہیں ان میں یہ بات سر فہرست ہے کہ پارٹی قیادت چوہدری نثار کے رویے سے نالاں ہے اور ان سے ایسے چھٹکارا چاہتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی شوکت بھٹی کا سیاسی شو شروع کر نا ہے تاکہ چوہدری تنویر کے بیٹے بیرسٹر دانیال کے لیے راہ ہموار کی جاسکے اس کا آغاز ہلکے انداز میں کر دیا گیا تو اس سے پہلے شوکت بھٹی نے بلدیاتی انتخابات میں کھل کر مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرکی مخالفت کی تھی اور اب وہ صوبائی سطح پرایک بار پھرسامنے آئے ہیں جہاں انہیں اگر اس حلقہ میں اتارا گیا تو سب سے زیادہ ان کو مخالفت ن لیگ کے قریبی حلقوں سے ہو گاجہاں اب موجودہ ممبر صوبائی اسمبلی قمرالسلام ان کی کھل کر مخالفت کرتے نظر آتے ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ چوہدری تنویر اور چوہدری نثار علی خان کی آپس میں سیاسی چپقلش ہے اب ایک اور خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ شہباز شریف کو ن لیگ کا صدر اور چوہدری نثار کو پنجاب کا صدر بنایا جا رہا ہے اس پر چند روز بعد میں سیاسی افق پر چھائی دھند چھٹ جائے گی اور منظر واضع ہو جائے گا چوہدری نثار علی خان کی سیاست کا اپنا ایک طریقہ ہے لیکن اب لگتا ہے کہ ان کی اپنی سیاست اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ اب لوگوں کا سہارا لینے لگے ہیں جن کے خلاف کچھ عرصہ پہلے روات ا ڈے میں گاڑیوں سے پرچیاں لینے پرجناب کے حکم پرکاروائیاں کی گئی لیکن آج ان کو کس بنیاد پر گلے لگایا جارہا ہے کل تک مافیاء کے الزامات لگا کرجن کے خلاف کاروائیاں کی گئی آج وہ مسلم لیگ ن کی اہم رہنماوں میں شامل ہو گئے ہیں اور چوہدری نثار علی خان ان کے ساتھ خوش گپیاں لگا کر خوش ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کے دیرینہ کارکنوں کا ایک طرف کرنے کا سلسلہ زور شور سے جارہی اور ساری ہے جس کا اب بر ملا اظہار ہونے لگا ہے اور دیرینہ کارکن اب کھل کر معاون خصوصی کے کرداروں کو آڑھے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور برملا اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ معاونین خصوصی کی پالیسی ہے کہ گروپ بندی کرو اور اپنے مفادات حاصل کرو اس کی واضع بازگشت صرف اور صرف یوسی مغل سے سامنے آیا جہاں معاونین خصوصی پر کھل کر تنقید کی گئی لیکن ابھی تک باقییوں نے چپ سادھ رکھی ہے اس کا دوسرا رد عمل یہ تھا کہ کسی یوسی میں بھی جشن آزادی کی تقریبات میں معاونین کی عدم شرکت نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں اس سے ان کے خلاف پکنے والے لاوے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے اور دال میں کچھ کالا ہے اس حلقہ میں اب ان کی قریبی حریف پیپلز پارتی بھی متحرک ہو رہی ہے اور ملک بابر اعوان اس حلقہ سے الیکشن لڑنے لے لیے کمر بستہ ہو رہے ہیں انہوں نے گزشتہ روز ایک ریلی کا اہتمام کیا تھا جس میں پیپلز پارٹی کے کارکنا ن کی کثیر تعداد میں شرکت نے یہ بات کھول کر سامنے کر دی کہاگر اس حلقہ پی پی 5سے پیپلز پارٹی کھل کر سامنے آگئی تو یقیناًوہ ن لیگ کے کافی بڑے تعداد میں ووٹروں کو ڈسٹرب کرے گی توتحریک انصاف اس وقت دبے پاوں اور کھل کر دونوں طریقوں سے اس حلقہ میں سرگرم عمل ہے جہاں ایک طر ف کرنل اجمل دن رات یکسوئی سے کام کرتے نطرآتے ہیں تو ساجد جاوید بھی تحریک انساف کے لیے بے پناہ محنت کر رہے ہیں جہاں چوہدری امیر افضل اور ان کے بھائی کا جنون پارٹی کے کام کر رہا ہے تو ملک سہیل اشرف بھی اب کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور وہ اب ہر طرح سے تحریک انصاف کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ایک طرف اب اس حلقہ میں سیاسی جماعتیں بھی میدان عمل میں نظر آرہی ہیں اور وہ ن لیگ مخالف ہیں اور ان کے پاس ممتاز قادری کی پھانسی کا اہم ایشو ہے اور وہ اس پر کا م کر رہی ہیں تو ن لیگ کے وہ دیرینہ کارکن جن کا اب کوئی والی وارث نہیں بن رہا ہے وہ بھی کوئی نہ کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں اس کے علاقہ وہ منتخب بلدیاتی نمائندے جو ن لیگ کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں ان کے کرداروں کو بھی یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے کل تک چوہدری نثار علی خان کی ایک آواز پر لبیک کہنے والے آج پارٹی میں پیراشوٹروں سے تنگ ہیں اورکسی حد تک مایوس ہیں ان کی آج بھی چوہدری نثار سے محبت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن موجودہ حالات نے ان کو بددل کررکھ دیا ہے{jcomments on}
137