این اے 52میں ن لیگ کی سیاست

آصف شاہ (نمائندہ پنڈی پوسٹ )
کہا جاتا ہے کہ سیاست ضرورت کا نام ہے ، لیکن وطن عزیز میں معاملات اس کے برعکس ہیں یہاں جو جتنا جھوٹ بولے گا اور غریب کو جتنا زیادہ سبز باغ دکھائے وہ اتنا ہی بڑا سیاست دان بن جائے گا۔ سیاست میں کسی بھی نامور سیاست دان کے پیچھے اس کے پارٹی اور نظریاتی کارکن ہوتے ہیں، جو اس کی کامیابی کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں، لیکن یہی سیاست دان جب اقتدار کی سیڑھیاں چڑھ کر اسمبلی میں پہنچتیں ہیں تو ان کو وہ کارکن جنہوں نے ان کی اس کامیابی کے لیے دن رات ایک کیا ہوتا تو ان کو بھول جاتے ہیں، پا پھر زیر دستی بھلا دیتے ہیں، آج بات ہوگئی این اے 52مسلم لیگ ن کے ان نظریاتی اور پرانے کارکنوں کی جنہوں کی شب روز کی محنت کو پیرا شوٹ مافیاء ہائی جیک کر لیا ہے اور دبنگ سیاست دان چوہدری نثار علی خان کے بھی نہ صرف اس پہ آنکھیں بند کر لی ہیں، بلکہ کبھی کسی بھی جلسے اور جلوس میں ان کے حوالہ سے ذکر خیر کرنا بھی مناسب نہ سمجھتے ہیں ، جوں جوں، الیکشن 2018قریب آنے جا رہے ہیں توں توں سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہو رہی ہیں، تحریک انصاف تو 2013کے الیکشن کے بعد سے بھر پور تیاریاں کر رہی ہیں، پورے پاکستان کی طرح این اے 52میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں، جہاں تحریک انصاف کے مختلف ڈھرے کام کر رہے ہیں وہاں پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی، اور دیگر مذہبی جماعتیں بھی حرکت میں آچکی ہیں، سیاسی اعتبار سے این اے 52 کسی وقت NA 39کہلاتا تھا، جہاں85کے الیکشن میں راجہ شاہد ظفر کا طوطی بولتا تھااس کے بعد مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اعجازالحق نے متواتر90,93,97کے الیکشنوں میں کامیابیاں سمیٹی دوہزار کے بعد کینٹ کے علاقہ کو حلقہ سے علیحدہ کر کے چک بیلی کے علاقے کو اس کے ساتھ ملا کر اس کو این اے باون کا نام دے دیا گیاتوچوہدری نثار علی خان کے اس حلقہ کی عوام کو عزت افزائی بخشی اور اس حلقہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا گو کہ ان کے لیے یہ حلقہ نیا تھا۔ لیکن ان کے ترقیامی کاموں جادوئی شہرت نے ان کو پہچان دی ہو ئی تھی۔ جس پر انہوں نے اس حلقہ میں اپنے حریف راجہ ناصر کو 18000سے ذائد ووٹوں سے شکست دی لیکن اس وقت حکومت ن لیگ نہ تھی ۔ تو وہ اس حلقہ میں ترقیاتی اس طرح نہ کروا سکے جو ان کا خاصہ تھا، الیکشن 2008میں ایک بار پھر وہ اپنے سیاسی حریف کے مد مقابل تھے اور تمام ناظمین اور کھڑ پینچ جو آج کل ن کی چھتری آ بیٹھے ہیں، ان کا سیاسی قبلہ دھمیال ہاوس تھا لیکن ق لیگ کے دور حکومت میں لال مسجد آپرلیشن کے بعد ان کا سیاسی گراف گر گیا۔ اس حلقہ سے چوہدری نثار علی خان کے کامیابی سمیٹی اور صوبائی حکومت ن لیگ کے بنا لی جبکہ و فاق میں پیپلز پارٹی براحمان تھی، یہاں پر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہہ 2008کے الیکشن میں ان کے کامیابی میں مسلم لیگ کے ورکروں کا بڑا ہاتھ تھا کیونکہ ایک طرف ناظمین اور کونسلر تھے جنہوں نے ترقیاتی کاموں کے جال بجھائے تھے۔ دوسری طرف ن لیگ کے وہ کارکن تھے جن اس وقت انتظامیہ نے دھچکا۔ لیکن وہ کسی صورت بھی نہ جانے اور بغیر کسی خوف کے اُنہوں نے چوہدری نثار علی خان کی سیاست کے ساتھ دیا اور سیاست میں مخالفین کو زیر کرنے کیلئے تھانہ کچہری کی سیاست کا بہت بڑا عمل دخل ہے، یہاں مسلم لیگ ن کے ان کارکنوں کا ذکر خیر کرنا بھی زیادتی ہو گئی جو کہہ مشرف کے آمریت کے دور میں جب چوہدری نثار علی خان کمر درد کی وجہ سے آرام کر رہے تھے تو ان کی کامیابی کو چار چاند لگانے والے کارکنوں کو ہر ممکن ذلیل و خوار کیا جا رہا تھا ، ان کارکنوں کا تعلق سفیدپوش اور متوسط طبقے سے تھا، لوہدرہ سے لیکر بھلاکر تک اور کلرسیداں یہ وہ علاقہ جہاں کارکن ہر حال میں کھڑے رہے، لیکن آج وہ کہاں کھڑے ہیں، اور ان کو اس حال میں کس نے بچایا اور عوامی خدمت کے دعویدار اور صاف شفاف سیاست والے چوہدری نثار کی آنکھیں ان سے کیوں تبدیل ہیں یہ ایک بڑا سوال ہے جو کہہ جواب کا طلبگار ہے!۔ اسی وقت پارٹی کے لیے کھڑے ہونے والوں میں یوسی لوہدرہ سے سیکرٹری طارق، چوہدری حنیف، موجودہ چیئرمین نوید بھٹی، چوہدری عاطف، راجہ شہزاد یونس ، ماسٹر عبدالمجید، راجہ ساجدجاویدجواب تحریک انصاف میں ہیں، راجہ اسماعیل اعظم، خان قمر مرحوم غزن آباد، کے علاوہ کلرسیداں سے شیخ ندیم احمد، صوبیدار غلام ربانی،، نمبردار اسجد مرحوم، محمود راجہ، کامران عزیز، چوہدری واصف ایڈوکیٹ،راجہ خلیق، راجہ حنیف، شیخ محمود صداف، ٹھیکدار استاد مرحوم، برزرگ رہنما، شیخ اکرم، صوفی ربنواز کے علاوہ بہت سے ایسے دوست بھی ہیں، کہہ اگر ان کا نام تواتر سے لکھیں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہہ یہ لوگ آج کہاں ہیں، جو پارٹی پر براجمان ہیں، ان کی کیا حقیقت ہے اور وہ کسی طرح دریردہ ن لیگ میں داخل ہو کر سینے کے بل بوتے ہو کر کہیے پہنچ گئے ہیں، یہاں شیخ ندیم کا ذکر خیر کرنا بھی ضروری ہے جو اس دوران متعدد بار گرفتار کیے گئے اور ان کو ساہیوال جیل بھیجاگیا ، آج جن کو چوہدری نثار علی خان کی ننگی تلواروں کے خطا بات سے نواز رہے ہیں، وہ اس وقت کہاں تھے اور کس، سیاسی چھتری پر اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے اب ن لیگ کے اندر سے بھی آواز یں اُٹھنے لگی ہیں، کہہ اس پارٹی پر ورکز کے بجائے انویسٹر اس پارٹی پر قابض ہو چکے ہیں، اور اچھا انویسٹر ایک لاکھ لگا کر ایک کو دولاکھ بنانے کے چکر میں ہوتا ہے، آج اگر پارتی پر نظر ڈالی جائے ، روات سے کلرسیداں تک ایسے لوگ موجود ہیں، جن کو نہ تو ن سے کوئی عرض ہے اور نہ ہی چوہدری نثار علی خان سے وہ صدف اپنے مفادات کیلئے پارٹی میں موجود ہیں اور بھر پور طریقے سے اس کو کیش بھی کروا رہے ہیں ، پرانے اور نظریاتی ورکز سے جنہوں نے جیلیں کاٹیں اور تکلیفیں سہیں ان کی قسمت میں ایک ٹکٹ تک نہیں اس کی مثال کلرسیداں ایم سی کے انتخابات تھے جہاں اپنے من مرضی کے افراد کو نوازا گیا، اور نظریاتی کارکنوں کو اب ایک بار پھر کھڈے لائن لگا دیاگیا۔ بالکل اسی طرح بلدیاتی چیئرمینز اور وائس چئیرمینز کو بھی سائید لائن کیا جا رہا ہے، ان کارکنوں کو کس نے سائیڈ لائن لگایا، اور کون منتخب بلدیاتی نمائندوں کو سائیڈ لائن کر رہا ہے، یہ لوگ چوہدری نثار علی خان کی صفوں میں موجود ہیں ان کو ڈھونڈنا ان کا کام ہے اور اسکی نشاندہی کرنا ورکرز کا کام ہے بصورت دیگر اگر تمام چئیرمینز کی مدد سے ق لیگ بری طرح بار سکتی ہے، تو چوہدری نثار علی خان کی سیاست کی تباہی اس سے بھی بری ہو سکتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں