140

دو واقعات 4افراد کا قتلٗ پوٹھوار کی فضاسوگوار

آصف شاہ‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
پوٹھوار پرامن اور محبت کرنے والوں کالوگوں کا خطہ ہے لیکن رواں ہفتہ کے دوران تحصیل گوجرخان کے علاقہ میں قتل کے دو مختلف واقعات میں چار افراد کی ہلاکت نے پورے پوٹھوار کی فضا کو سوگوار کر دیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کے زہنوں پردہشت سی چھا ئی ہوئی ہے کہ روح زمیں پر اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا جانیوالا انسان لالچ میں آکر اتنا گر جاتا ہے کہ مال و دنیا کی عرض میں انسان کو قتل کرنے جیسے غیر معمولی اقدامات  سے بھی گریز نہیں کرتا‘ دوسری جانب انصاف کی عدم فراہمی اور عدم برداشت کی بناء پر بدلہ لینے کیلئے قانون میں ہاتھ میں لیکر انسانیت کا خون کردیتا ہے اعتبار اور یقین سے دنیا کے معاملات رواں دواں ہیں کلرسیداں  کے موضع کنڈ کے رہائشی شبیر بھٹی اور انکے بیٹے مدثر بھٹی اپنے ہی محلے کے  رہائشی عمران مانی  پر اعتماد کرتے ہوئے اسکی گاڑی بگنگ محض اس لیے کروائی کہ وہ اپنے محلہ دار ہے لیکن عمران مانی نے دیکھا کہ وہ گاڑی کی خریدار ی کیلئے جارہے ہیں اور ان کے پاس لاکھوں روپے ہیں تو اس کے دل میں لالچ پید ا ہوئی وہ ان کی رقم ہتھیانے کیلئے  دل ہی دل میں منصوبہ بندی کرلگا جس ہی گاڑی تھانہ گوجرخان علاقہ جنڈ نجار کے علاقہ میں پہنچی تو اس نے موقع جان کر فائرنگ کرکے دونوں باپ بیٹوں کو قتل کر دیا ان کے جیب  میں موجود ساڑھے سات لاکھ روپے کی رقم میں سے پانچ لاکھ روپے نکال ان کی نعشوں کو روڈ کنارے پھینک کر فرار ہوگیا ساری رقم نہ نکال کر اس واقع کو یہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی کہ ان کا قتل ڈکیتی کی بجائے کسی دشمنی بناء پر کیا گیا جب ان کے قتل اور نعشوں کے ملنے کی خبر عام ہوئی تو قاتل نے کما ل ہوشیاری سے ڈرامہ بازی کرتے ہوئے مقتول کے گھر گیا اور اہل خانہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ میں نے ان کو سٹاپ پر ڈارپ کردیا تھا یہاں سے انہوں نے کسی اور گاڑی میں سوار ہونا تھا جس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے اور ساتھ ہی رات مقتول کے گھر میں  انکی موت پر آہوں زاری کرتا رہا تاکہ لواحقین کو علم نہ وہ ان کے قتل میں وہ ملوث ہے لیکن جب وہ مقتولین کے جنازہ میں شامل نہ ہوا تو پولیس نے شک گزرنے پر  ڈرائیور عمران مانی کو اس کے گھر سے حراست میں لیکر تھانہ گوجرخان لے گئے توعلاقہ کے چند معززئین  بھی اس کی صفائی دینے کیلئے گوجرخان پہنچ گئے اور پولیس کو یقین دہانی کروائی کہ یہ شریف آدمی ہے وہ قتل جیسے واقعہ میں ملوث ہونے کی جرات نہیں کرسکتا ہے جس پر پولیس نے بیان حلفی کے بعد ان کو بازار تک جانے کی اجازت دی ہوٹل پر کھانا کھانے کے دوران موقعہ پانے پر ڈرائیور عمران فرار ہو ہوگیا جس پر پولیس کی دوڑیں لگ گئیں اور ان کو سو فیصد یقین ہوگیا کہ ڈرائیور ہی ان کے قتل میں ملوث ہوسکتا ہے پولیس نے 24گھنٹوں کی محنت کے بعد ملزم کو اس کے بہنوئی کے گھر سے گرفتار کرلیا جس پر اس نے انکشاف کیا کہ اسی نے ان کو قتل کیا ہے پولیس کے زرائع کا کہنا  ہے کہ ان کو کسی اور جگہ پر قتل کیا گیا ہے اور پھر ان کی لاشوں کو مزکورہ جگہ پر لایا گیا مقتولین بناہل کے رہائشی تھے اور کافی عرصہ پہلے وہ کنڈ میں منتقل ہوئے تھے جوں جو ں تفتیش مکمل ہو گی نئے انکشافات سامنے آ ئیں گے  ایک دوسرے واقعہ میں گوجر خان کچہری میں پولیس کی موجودگی میں دن دیہاڑے دو افراد کو فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دہا گیا اس وجہ دیرینہ دشمنی کو بتایا گیا زرائع کا کہنا ہے کہ اس دشمنی کی ابتدا  2015 میں ہوئی جب قصبہ گلیانہ کے محلہ کشمیریاں کے رہائشیوں نجیب اور احسان کو ملزمان عثمان اور عدنان نے بیدردی سے قتل کر نے کے بعدانکی لاشوں کے ٹکڑے ٹکرے کر کے ان کو کسی قریبی ڈیم میں پھینک دیا تھا ان کی دشمنی سے قبل قاتل اور مقتولین ایک تھے اور ان کی آپس میں گہرا یارانہ تھا اور دونوں گروپوں کا زریعہ معاش ڈکیتی اور راہزنی بتاتا جاتا ہے پولیس کے زرائع کے مطابق کسی ایک واردات کے بعد ان میں مال کے تقسیم پر معاملے پر آپس میں چپقلش ہوئی جس کی وجہ سے نوبت قتل تک پہنچ گئی قتل ہونے کے بعد پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا تھا اور دوسرا ملزم عثمان مفرور تھا جس کو بڑی تگ دو کے بعد شیخ قاسم نے لاہور سے گرفتار کر لیا تھا  اور اس کے پاس سے کافی مقدار میں اسلحہ بھی برآمد کیا تھا اس کے بعد دو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد گزشتہ روز  مقتول نجیب ااور احسان کے بھائی رمضان نے موقع پاکر گوجر خان کچہری میں پیشی پر آئے ہوئے عثما ن اورعدنان کو گولیوں سے چھلنی کر دیا عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملزم نے 22کے قریب فائر کیے اور پھر آلہ قتل سمیت گرفتاری دے دی تو مقتولین کے و رثا نے مین جی ٹی روڈ احتجاجا بلاک کر دی اور پھر پولیس کی یقین دہانی پر روڈ کو کھول دیا اس واقع سے ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وقوعہ کے روز ملزم کیسے اسلحہ اور اتنے راوندلیکر کچہری میں داخل ہوا  اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں اور اس کی کیا وجوہات ہیں اس سے پولیس جس پر پہلے ہی عوام کا اعتبار کم ہے کے ملوث ہونے کے شواہد کو مسترد نہیں کیا جا سکتا گوکہ اس واقع کے فوری ری ایکشن کے بعد7پولیس اہلکاروں کو وقتی طور پر معطل کر دیا گیا کیا یہ اس کا حل ہے ایک کہاوت ہے کہ کھیت کی رکھوالی کے لیے لگائی جانے والی باڑ ہی جب کھیت چرنے لگے تو پھر اللہ ہی حافظ محکمہ پولیس کی کارکردگی کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے  تاکہ عوام کی جان مال کے تحفط کے لیے بنایا جانے والا محکمہ اپنا اصل کام کرے اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب اس سے سیاسی مداخلت ختم کی جائے گی{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں