چوہدری نثار اپنی 35سالہ سیاسی ساکھ بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
ہم
ارے ہاں سیاست کی بنیاد وں میں جھوٹ کو کوٹ کوٹ کر بھرا جاتا ہے اور عوام کو ایسے خواب دکھائے جاتے ہیں جس پر وہ آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں ،لیکن اس راہ پر خار میں اب بھی کچھ ایسی شخصیات موجود ہیں جنہوں نے اپنے دامن کا بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں گوکہ اب عوام میں شعور بیدا ہوچکا ہے لیکن حالات کا صیح سمت میں آنا کافی مشکل ہی نظر آتا ہے ،این اے 59میں ان دنوں چوہدری نثار علی خان نے اپنے طرز سیاست کو بدل لیا موجودہ حالات اس بات کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں کہ شائید ان کو سیاسی موت نظر آرہی ہے جبھی وہ اب گاوں گاوں بے محل اور بے موقع جلسے جلوس کرتے نظر آرہے ہیں (پوٹھواری کی ایک مثال ہے،،ویلے نی نماز کویلے نیاں ٹکراء)کے مصداق انہوں نے اس وقت اپنی ایک علیحدہ ڈیذھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے،جبکہ ان کے قریبی زرائع یہ دعوی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مسلم لیگ ن سے چوہدری نثار علی خان کو کوئی الگ نہ کر سکا ہے نہ کر سکے گا اور ن لیگ کو بنانے کے لیے اینٹیں لگانے کا وہ خود بھی اظہار کرتے نظر آتے ہیں انہوں نے گزشتہ الیکشن کو تسلیم نہیں کیا ہے اورصوبائی کی اکلوتی سیٹ کو وہ چھوڑنے پر آمادہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی حلف لیتے ہیں الیکشن میں آذاد حثیت سے میدان میں آنے کے بعد ان کو اپنے ساتھ گزشتہ دس سال تک ایم پی اے رہنے والے قمراسلام راجہ کا چیلنج درپیش تھا لیکن شومئی قسمت قمراسلام راجہ الیکشن سے آوٹ ہوئے یا آوٹ کروادیا گیا جس کے بعد ،،سونیاں ہوون گلیاء تے وچ رانجھا یار پھرے کے مصداق،،والا معاملہ نہ بن سکا اور چوہدری نثار کو اپنے پرانے سیاسی حریف کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ اس شکست کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں دوسری جانب وہ ایک ہی رٹی رٹائی پریس کانفرنس گزشتہ آٹھ ماہ سے کرتے نظر آتے ہیں ہیں ،گوکہ قید سے ریائی کے بعد قمراسلام راجہ نے چپ سادھ لی تھی لیکن گزشتہ روزانہوں نے سوشل میڈیا پر چوہدری نژار علی خان کو آڑھے ہاتھوں لینے کی کوسش ایسے کی جیسے بلاول نے لات مار کر حکومت گرانے کا دعوی کیا ہے بقول ان کے الیکشن 2018 کے نتائج پر چوہدری نثار علی خان نے وہ آدھا سچ بولا ہے کہ انہیں قومی اسمبلی کے الیکشن میں ہروایا گیا ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یہ بھی بتا دیتے یہ سب کچھ ان کے ساتھ کس نے اور کیوں کیا ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ یہ الزام وہ الیکشن کمیشن اور حلقہ عوام سمیت جس کسی پر بھی لگا رہے ہیں اس نے انھیں قومی اسمبلی میں ہروایا نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی میں جتوایا ہے جس پر انھیں بجا طور پر اس کا احسان مند ہونا چاہیے۔ این اے 63 میں بیٹھ کر انھوں نے این اے 59 اور پی پی 10 کی جن یونین کونسلز کے نتائج کو اپنی دلیل کے حق میں بطور ثبوت پیش کیا ہے، وہی غیر معمولی نتائج در اصل میری بات کی تصدیق کرتے ہیں حیرت انگیز نتائج این اے 59 کے نہیں بلکہ پی پی 10 کے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر پولنگ سٹیشن پر قومی اسمبلی میں بری طرح ہارنے والا امیدوار اسی انتخابی نشان پر صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر رہا ہو جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی تعداد میں زیادہ اور مقامی ہوں یہی اصل جادو تھا اور بجائے اس کے کہ وہ عامل کے شکرگذار ہوتے، وہ صوبائی اسمبلی کا حلف نہ اٹھا کر کفران نعمت کر رہے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی خوف اور ہچکچاہٹ نہیں کہ جس وجہ سے وہ صوبائی اسمبلی میں جانا چاہتے تھے وہ پنجاب میں جیپ کے عبرتناک شکست کے بعد اپنی موت آپ مر گئی تھی یہ بزداروں کی اپنی قسمت تھی کہ پورا ملک جیپوں کا قبرستان بن گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ این اے 59 اور پی پی 10 میں مسلم لیگ نون کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے دور حکومت میں لیے گئے اس الیکشن کے نتائج سے ایک اوربات بھی واضح ہو گئی ہے کہ شیروں کو پنجروں میں بھی بند کر دیا جائے تب بھی جیپوں میں بیٹھ کر شکار ممکن نہیں ہوتا اور ان کی ناتواں اور نہتی اولادیں انہیں الٹ دیا کرتی ہیں،قمراسلام راجہ کے اس بیان کے بعد سیاسی پنڈت یہ بات کرتے نظر آتے ہیں کہ قمراسلام راجہ نے اپنی تمام کشتیوں کو جلانے کے باوجود اپنی سیاست میں جارحانہ طرز کو نہیں اپنایا انیں شائید اس بات کا فکر ہے کہ کل کلاں چوہدری نثار علی خان اگر ن میں دوبارہ آجاتے ہیں تو ان کی کسی حد تک مدافعتانہ سیاست ان کی لاج رکھ لے گی لیکن کچھ یوسیز کے منتخب چیئرمین قمرالسام راجہ کی اس سیاست سے مکمل نالاں نظر آتے ہیں اور وہ محفلوں میں اس کا زکر بھی کرتے ہیں کہ اگر بحثیت یوسی چیئرمین کھل کر سیاست کی تو ان کو بھی کھل کر میدان میں آنا ہوگا حلقہ کی عوام بھی قمرالسلام راجہ سے ایک خاص لگاو کے ساتھ ساتھ شکوہ کناں ہے کہ ان کوسیاست میں ان رہنے کے لیے اپنا سیاسی طرز عمل بدلنا ہوگابصورت دیگر ان کی تمام کاوشیں وقربانیاں رائیگاں جائیں گی،عوام حلقہ وعلاقہ یہ بات برملا کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں اپنے حلقہ میں ایک جارحانہ طرز سیاست کا اپنانا ہوگا کیونکہ اگر اس وقت قمرالسلام راجہ نے ٹرین مس کر دی تو یقیناًان پر قسمت کی دیوی مہربان نہیں ہوگی،اس کا فیصلہ قمرالسلام کو کرنا ہوگا اور اس کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے گیند ان کے کورٹ میں

اپنا تبصرہ بھیجیں