{jcomments on}
تحریر فرحت زمان کیانی سعودی عرب
تحریک انصاف نے 23 مارچ کو مینار پاکستان پر بلاشبہ ایک بہت بڑا جلسہ کیا، اب تعداد کے بارے میں بھی مختلف آرا ہیں حامی اور مخالفین سب اس کو
اپنے اپنے حساب سے بیان کر رہے ہیں، اور 30 اکتوبر کے جلسے سے تقابل بھی کیا جا رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ تعداد پچھلے جلسے سے زیادہ تھی کوئی کہہ رہا ہے کہ تعداد کم تھی لیکن ایک بات پر مخالفین بھی متفق ہیں کہ جلسہ واقعی بہت بڑا تھا۔ ذاتی طور پر میری رائے میں یہ جلسہ ہر لحاظ سے پچھلے جلسے سے بہت زیادہ کامیاب تھا اور تحریک انصاف کا اصل امتحان بھی تھا، کامیابی کے لحاظ سے 30 اکتوبر کا جلسہ اس لیئے اس جلسے سے مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ دونوں جلسوں کی کامیابی کے پس پردہ عوامل مختلف تھے، 30 اکتوبرکا جلسہ تحریک انصاف کےووٹرز سے زیادہ ان لوگوں کی شرکت سے کامیاب ہوا تھا جو دونوں بڑی پارٹیوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے ناراض تھے اور 30 اکتوبر کے جلسے میں شرکت دراصل اس بے حسی کے خلاف احتجاج تھا، اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ لوگ عمران خان کے نظریات یا تحریک انصاف کی محبت میں نہیں آئے تھے، بلاشبہ اس کامیابی میں عمران خان کی برسوں کی ریاضت کا بہت بڑا ہاتھ تھا جس کی وجہ سے وہ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کے دل میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اور دوسری بات کہ لاہور کےمقامی لوگ بہت زیادہ تعداد میں شریک ہوئے لوگوں کی رضاکارانہ شرکت کی وجہ مہنگائی، بدامنی، لوڈشیڈنگ جیسے مسائل تھے، لوگوں میں ایک بےچینی اور غم و غصہ تھا اور ان کو اپنے غصے کے اظہار کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن کی آپس میں ملی بھگت کا لوگوں کو تقریبا یقین ہو چکا تھا، ایسی مایوسی میں تحریک انصاف کے 30 اکتوبر کے جلسے نے ان کو ایک موقع اور پلیٹ فارم فراہم کر دیا کہ جہاں اکٹھے ہو کر انہوں نے اشرافیہ کو جھنجھوڑ دیا، خیر پی پی پی نے تو کوئی خاص توجہ نہیں دی اور وہ مال بنانے میں مصروف رہے، لیکن اس جلسے نے نوازلیگ کو ہلا کر رکھ دیا، اور ان کو اپنی باری خطرے میں لگنے لگی۔ ان کو شاید پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی پاکستان بدل رہا ہے، اور اس تبدیلی نے ان کو بےچین کر کے رکھ دیا۔ اور اس کے بعد نوازشریف کی سیاست اور پنجاب میں طرزحکمرانی میں بہت بڑی تبدیلی آگئی، میاں صاحب نے قاف لیگ کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے۔ ہر اس شخص جس کے بارے میں ان کو گمان تھا کہ وہ سیٹ جیت سکتا ہے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا، وہ چاہے مشرف کا پستول بند بھائی امیر مقام ہو چاہے مشرف کی بھتیجی ماروی میمن۔ میڈیا پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا، اینکرز اور کالم نگاروں کی چاندی ہو گئی۔ وہی لوگ جو 30 اکتوبر کے جلسے کے بعد عمران خان کے گن گا رہے تھے آہستہ آہستہ اس کے خلاف زہر اگلنے لگے، ایسے میں عمران خان سے بھی غلطیاں ہونے لگیں، پارٹی میں شامل ہونے والوں کی قطاریں لگ گئیں، اور دھڑادھڑ موسمی پرندے شامل ہونے لگے، اس نے تحریک انصاف کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا اور وہ لوگ جو تبدیلی کی امید لگائے ہوئے تھے وہ کنفیوز ہونا شروع ہوگئے، اس دوران میڈیا نے اپنی توپوں کے دھانے تحریک انصاف پر کھول دیے اور میڈیا میں لگا کروڑوں اربوں روپیا اپنا آپ دکھانے لگا، لیکن یہ عمران کے لیے ایک ویک اپ کال ثابت ہوا، اور عمران خان نے اعلان کر دیا کہ ٹکٹ کا وعدہ کسی سے نہیں کرتا، اس امید پر شامل ہونے والوں نے اور آشیانے تلاش کرنے شروع کر دیئے اور آخری امتحان ثابت ہوئے تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات، یہ ایک ایسا اعلان تھا کہ جس کا سن کر تحریک انصاف کی نظریاتی لیڈرشپ بھی گھبرا گئی۔ ان کو اپنی برسوں کی محنت خطرے میں نظر آنے لگی، عام تاثر یہ ابھرا کہ ان انتخابات سے پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ جائے گی لیکن یہ سب عمران خان کی ثابت قدمی اور مضبوط قوت ارادی کا ہی نتیجہ تھا کہ تحریک انصاف اس امتحان سے بھی سرخرو ہو کر نکلی۔ دوسری طرف مخالفین نے میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تحریک انصاف سے بدظن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پنجاب میں بڑے بڑے منصوبے راتوں رات شروع کئے گئے اور انتہائي عجلت میں ان کی تکمیل بھی ہونے لگی۔ لاہور سمیت پنجاب پورے میں خزانوں کے منہ کھول دیئے گئے ترقیاتی منصوبوں کے لیےبے ہنگم طریقے سے پیسہ پانی کی طرح بہایا جانے لگا، نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے لیپ ٹاپ اسکیمیں اور دیگر پروگرامز شروع کیئے گئے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی کردارکشی کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا سیل بنائے گئے۔ سروے کرنے والوں کی چاندی ہو گئی سال میں 3-3 سروے آنے لگ گئے۔ اور اچانک نوازلیگ کا گراف خیبر پختونخواہ جیسے صوبوں میں بھی اوپر جانے لگا۔ غرض شریف برادران نے اپنی مخصوص “شرافت “دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کا مظاہرہ انہوں نے 90 کی دہائی میں بے نظیر اور عمران خان کے خلاف کیا تھا،غرض ہر کوشش کی گئی کہ تبدیلی کو روکا جا سکے۔ ایسے میں تحریک انصاف بظاہر اپنے اندرونی انتخابات کی وجہ سے خودکشی پر مائل نظر آ رہی تھی، لیکن نوازلیگ، میڈیا سمیت بہت سے لوگ جن کو ابھی تک بھی اندازہ نہیں کہ پاکستان میں بہت تبدیلی آچکی ہے اور جو شاید یہی سمجھ رہے تھے کہ پیسے سے سب کچھ خریدا جا سکتا ہے ان کے لیے 23 مارچ 2013 کا جلسہ ایک ویسا ہی جھٹکا ثابت ہو گا جیسے 11 اکتوبر کا جلسہ ثابت ہوا تھا۔ اسی لیے میری نظر میں 23 مارچ والا جلسہ ہر لحاظ سے 11 اکتوبر کے جلسے سے بہتر تھا کیونکہ اس نے ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت کوئی وقتی ابال نہیں تھا۔ اور دوسرا پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں تحریک انصاف بہت سے امتحانوں سے گذر کر صحیح معنوں میں ایک منظم جماعت بن چکی ہے۔ اور پچھلی دفعہ تو نوازلیگ کو کوئی احساس نہیں تھا کہ اتنا بڑا جلسہ ہو سکتا ہے، لیکن اس دفعہ انہوں نے اپنی سی ہر کوشش کی کہ اس کو ناکام کیا جاسکے۔ لاہور کو ایک قلعہ کی طرح بند کر کے رکھ دیا گیا، سیکیورٹی کے نام پر موبائل فون بند کر دیئے گئے، لیکن جذبے کی جیت ہوئی اور تحریک انصاف نے ایک دفعہ پھر مینار پاکستان کا میدان بھر دیا۔
اب عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہی غلطی دوبارہ نہ دہرائیں جو 30 اکتوبر کے بعد انہوں نے دہرائی تھی، ایک بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ لوگ تحریک انصاف کو دو وجوہات پر ووٹ دیں گے ایک عمران خان کی ساکھ پر دوسرا امیدوار کی ایمانداری اور قابلیت کی وجہ سے۔ اس لیے اگر وہ اچھی شہرت کے حامل پڑھے لکھے لوگوں کے ٹکٹ دیتے ہیں تو جیسے حالات نظر آرہے ہیں ایسے میں تقریبا 3 کروڑ 97 لاکھ نوجوان ووٹر جن کی عمریں 18 سے 35 سال تک ہیں اور وہ لوگ جو ووٹ نہیں ڈالتے تھے وہ بھی اس دفعہ ووٹ ڈالنے پر مائل نظر آتے ہیں یہ دونوں بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ پچھلے تمام الیکشنز کا ووٹر ٹرن آؤٹ تقریبا 50 فیصدسے زیادہ نہیں رہا جو اس دفعہ کافی امید ہے کہ 80 فیصد تک جائے گا اور اگر یہ اضافی 30 فیصداور نوجوان جو بظاہر تحریک انصاف کو سپورٹ کر رہا ہے ووٹ تحریک انصاف کو ملتا ہے تو سیاست کی بساط الٹ جائے گی۔