زبیر کیانی کوحلقہ پی پی 10سے آوٹ کرنے کی سازش؟

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
حلقہ بندیوں سے پیدا ہونے والے زلزلے کے بعد آنے والے آفٹر شاک کا سلسلہ تاحال جا رہی ہے جس سے عوام تو عوام لیکن سیاسی لیڈران سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں جہاں ملکی لیڈران شش پنج کا شکار ہیں وہاں پر مقامی سیاسی نمائندے بھی ایک عجیب دوراہے پر کھڑے ہیں کوئی بھی مقامی سیاسی اور بلدیاتی نمائندہ ابھی تک کھل کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں کر سکا ہے اس حوالہ سے گزشتہ ہفتہ کو حلقہ بندیوں کے خلاف دائر پٹیشن کو نبھٹا دیا گیا ،راجہ پرویز اشرف کی دائر پٹیشن کو مان کر حلقہ قانو گو سکھو اور حلقہ قانو گو چوآہا خالصہ کو این اے 58کا حصہ بنادیا گیا اس وقت سب سے زیادہ اور بے یارو مدد گار حلقہ روات کی پانچ یونین کونسلز ہیں جن کا کوئی بھی والی وارث نہیں ان میں یوسی ساگری‘لوہدرہ‘ مغل‘ تخت پڑی اور یوسی بگا شیخاں ہیں جن کو گوجر خان کے ساتھ لگایا گیا تو مکمل خاموشی اب ان کو مری کے ساتھ لگایا دیا گیاہے یوسی بشندوٹ کو قومی حلقہ میں این اے57 گوجرخان ا ور پی پی 9کے ساتھ لگا دیا گیا جس پر نہ صرف منتخب چیئرمین زبیر کیانی بلکہ اس یوسی کی عوام بھی حیران پریشان ایک دوسرے کا منہ تک رہی ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگیا ہے گو کہ یہ انتظامی معاملہ ہے لیکن اس معاملے کو عوام اور بالخصوص اس پٹوار سرکل کے عوام طرح طرح کے سوال اٹھا رہے ہیں اس وقت عوامی حلقوں میں اس بات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ کیا یوسی بشندوٹ کی عوام کے ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیلا گیا کیا اس میں سیاست تو ملوث نہیں یا اس پر کوئی مرضی کا فیصلہ مسلط کروایا گیا ہے عام عوام کا یہ سوال ہے کہ یوسی ، بشندوٹ کا پی پی9 گوجرخان سے الحاق ہی غیر فطری ہے اگر اس کو پی پی 7 کہوٹہ میں نہیں رکھنا تھا تو کم از کم اس کو پی پی 10کا حصہ بنا دیا جاتا لیکن اس پر ایک بار پھر اورہیڈ برج بنا دیا گیااور اس یوسی کو چھوڑ کر یوسی بلاکھر کو پی پی 10میں شامل کر دیا گیا ہے جو اس سے پہلے پی پی7کا حصہ تھا یہاں ایک سوال جو عوام میں اٹھ رہا ہے کہ اس مرتبہ حلقہ بندیوں میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے کیونکہ سابقہ پی پی2اور پی پی 3کو انکی سابقہ پوزیشن پر بحال کر دیا گیا ہے تو پھر وہ کون سء وجوہات تھی جس کی بنا پر یوسی بشندوٹ کی عوام کو پی پی9میں شامل کر کے سولی پر لٹکا دیاگیا سیاسی پنڈتوں نے اس سارے معاملات میں بڑے راجہ جی یعنی راجہ ظفرالحق کا نام لیتے نظر آتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ زبیر کیانی کا اس حلقہ اور علاقے میں سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے یہ معاملات اس نہج پر پہنچے ہیں کیونکہ جب یہ یوسیز پی پی 7میں تھی تو زبیر کیانی نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا اور ان کا مقابلہ راجہ ظفر الحق کے بیٹے راجہ محمد علی سے ہونا تھا چونکہ حلقہ بندیاں نئی تھی اس لیے اس میں راجہ محمد علی کی جیت مشکل تھی کیونکہ راجہ صضیر کے بعد اب ان کا مقابلہ ایک اور آذاد امیدوار سے ہونا تھا اور اسی وجہ سے اس یوسی کو مکھن سے بال کے طرح نکال کرباہر کیا گیاتو موجود پی پی 10میں قانو گو کلرسیداں کی کچھ یوسیز کو شامل کر دیا گیا،موجودہ حالات کدھر جاتے ہیں آیا حلقہ بندیاں اسی شکل میں ہیں گئی یا ان میں کچھ پھر ردوبدل کیا جائے گا اس پر یقیناًابھی کچھ کہنا مشکل ہے ،چیئرمین یوسی زبیر کیانی نے اس حوالہ عدالت سے رجوع کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اب فیصلہ کیا ہوگا اس پر قبل ازوقت کچھ کہنا مشکل ہے لیکن بحثیت ایک یوسی کے منتخب نمائندہ ہونے کے انہوں نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے لیکن ان کی یوسی میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس معاملہ میں عدالت کا دروزہ کھٹکھٹائیں چیئر،یم یوسی بشندوٹ اس وقت عوامی حلقوں میں اپنا ایک مقام بنا چکے ہیں اور پرانے سیاسی کھلاڑیوں کو شائید ان کی سیاست میں آمد ناگوار گزری ہے جس کہ وجہ سے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے دوسری طرف زبیر کیانی نے بھی کھ کر سیاسی میدان میں آنے کا عندیہ دے دیا ہے انہوں نے پی پی 10سے الیکشن لڑنے کا اعلان چوہدری نثار کے الیکشن سے مشروط کر دیا ہے کہ اگر اس حلقہ سے صوبائی کی سیٹ سے چوہدری نثار نے الیکشن لڑا تو نہ صرف ان کی حمائیت بلکہ ان کی کامیابی کے لیے دن رات کرینگے اور اگر چوہدری نثار علی خان نے صرف قومی الیکشن لڑا تو وہ بہر صورت الیکشن میں حصہ لیتے نظر آرہیں اگر وہ اعلان کرکے الیکشن میں حصہ نہیں لیں گے تو یقیناًان کی ساسی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا،اس حلقہ سے موجودہ ایم پی اے قمرالسلام راجہ بھی میدان میں موجود ہیں اگر چوہدری نثار کی پارٹی کے ساتھ بات چیت بن جاتی ہے تو پھر قمراسلام راجہ کا سیاسی طور پر دحڑن تختہ ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ چاہے کچھ بھی ہو چوہدری نثار علی خان یہ کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے کہ ان کے مدمقابل الیکشن کا اعلان کرنے والاان کے ہی پینل میں شامل ہو

اپنا تبصرہ بھیجیں