ہیلمٹ کا استعمال،تحفظِ جان یا معاشی دباؤ؟

ایک سنجیدہ سوال جو پنجاب کی سڑکوں پر گونج رہا ہے،پنجاب کی شاہراہوں پر ٹریفک کا بڑھتا ہوا دباؤ، موٹر سائیکلوں کی بڑھتی تعداد، اور ٹریفک قوانین سے غفلت یہ سب وہ عوامل ہیں جو روزانہ کئی گھروں میں اندوہناک حادثات کی شکل میں داخل ہوتے ہیں۔ ایسے میں پنجاب حکومت کی جانب سے ہیلمٹ کے لازمی استعمال اور ای چالان سسٹم کا آغاز بلاشبہ ایک بروقت اور قابلِ تحسین قدم ہے۔

یہ اقدام صرف قوانین کی حد تک محدود نہیں بلکہ انسانی جانوں کے تحفظ سے جڑا ہوا ہے۔ دستیاب اعداد و شمار اور رپورٹس یہ حقیقت واضح کرتی ہیں کہ ہیلمٹ پہننے سے سر اور دماغ کی خطرناک چوٹوں سے بچاؤ ممکن ہے، اور اسی لیے دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں اسے انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔پنجاب میں حالیہ عرصے کے دوران ہونے والی ٹریفک مہمات نے بھی یہ ثابت کیا کہ جب قانون سختی سے نافذ ہوتا ہے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ صوبے میں ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں 26 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی، یہ کمی معمولی نہیں، بلکہ ہزاروں خاندانوں کو بچھڑنے کے دکھ سے بچانے والی کمی ہے۔

یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو حکومت کے اس اقدام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ ہیلمٹ محض ایک حفاظتی آلہ نہیں، ایک زندگی کی ضمانت ہے۔تاہم تصویر کا دوسرا پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ معاشی صورتحال نے عام آدمی کی کمر توڑ رکھی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور کم آمدنی کے حالات میں روزانہ کی دہاڑی پر کام کرنے والا موٹر سائیکل سوار اگر ایک طرف زندگی کی دوڑ میں شامل ہے تو دوسری طرف اس کے پاس اتنا اضافہ شدہ جرمانہ ادا کرنے کی صلاحیت نہیں کہ وہ 2000 سے 5000 روپے تک فوراً نکال سکے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک طرف قانون اسے تحفظ فراہم کررہا ہے اور دوسری طرف معاشی بوجھ اس کی سانسوں کو تنگ کررہا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں حکومت کو اپنی حکمتِ عملی میں تھوڑا توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

قانون نافذ کرنا ضروری ہے، مگر عوام کو ساتھ لے کر چلنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اگر ٹریفک پولیس صرف چالان کرنے تک محدود رہے گی تو عوامی ردِعمل پیدا ہوگا۔ لیکن اگر وہ چالان کے ساتھ ساتھ سہولت بھی فراہم کرے مثلاً ”ون ونڈو“ آپریشن کے تحت وہیں موقع پر ہی کم قیمت میں ہیلمٹ فراہم کرے، یا فوری طور پر لائسنس بنانے کی سہولت دے تو نہ صرف قانون کی پاسداری بڑھے گی بلکہ شہریوں میں اعتماد بھی پیدا ہوگا۔ یہی وہ تجویز ہے جو آج عوامی حلقوں میں شدت سے زیرِ بحث ہے کہ اگر پولیس چالان کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سوار کو رعایتی قیمت پر ہیلمٹ دے دے یا اس کا لائسنس بنوا دے، تو اس سے ایک طرف جرمانے کا بوجھ کم ہوگا اور دوسری طرف قانون پر عملدرآمد بھی بڑھے گا۔ یوں حکومت کا مقصد بھی پورا ہوگا اور عوام کی مشکلات بھی کم ہوں گی۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہ طرزِ عمل اپنایا جاتا ہے کہ پہلے سہولت پھر سختی ہمیں بھی یہی اصول اپنانا چاہیے۔

نکتہ یہ ہے کہ انسانی جان کی قیمت کسی جرمانے یا کسی معاشی بوجھ سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک نوجوان کا ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جانا صرف ایک فرد کا نقصان نہیں ہوتا، ایک پورا خاندان معاشی اور ذہنی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے یہ بات دہرانا ضروری ہے کہ ہیلمٹ کی پابندی محض قانونی تقاضا نہیں بلکہ معاشرتی ذمہ داری ہے۔پنجاب حکومت کا موجودہ اقدام، خواہ وہ ای چالان سسٹم ہو یا ٹریفک قوانین کی سختی، بنیادی طور پر درست سمت میں ہے۔ لیکن عوامی فلاح و بہبود کے بغیر کوئی بھی قانون دیرپا کامیابی نہیں پا سکتا۔ اگر حکومت ہیلمٹ کی قیمتوں میں کمی، آسان دستیابی، فوری لائسنسنگ سہولت اور عوامی آگاہی مہم کو ساتھ ساتھ لے کر چلے، تو ٹریفک قوانین کی پاسداری خود عوام کی ضرورت اور ترجیح بن جائے گی۔

آخر میں سوال یہ نہیں کہ ہیلمٹ لازمی ہونا چاہیے یا نہیں یہ سوال تو کب کا حل ہو چکا۔ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت اس لازمی قانون کو عوام کے لیے کتنا سہل بنا سکتی ہے؟ سڑکیں محفوظ تب ہوں گی جب قانون سخت بھی ہو، سستا بھی ہو، اور قابلِ عمل بھی اور یہی وہ توازن ہے جس کی تلاش میں آج پنجاب کا ہر شہری ہے۔

راجہ طاہر