columns 198

ہتک عزت بل 2024

پاکستان میں صوبہ پنجاب کی اسمبلی نے ہتک عزت کا ایک نیا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت حکومت ایسے خصوصی ٹربیونل بنا سکے گی جو چھ ماہ کے اندر اندر ایسے افراد کو سزا دیں گے جو فیک نیوز بنانے اورپھیلا نے میں ملوث ہو ں گے۔

یہ سزاتیس لاکھ روپے تک ہرجانے کی صورت میں ہو سکتی ہے اور ہرجانے کی یہ سزا ٹربیونل ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی ہتک عزت کی درخواست موصول ہونے پر عبوری حکمنامے میں سنا سکتا ہے ٹرائل کے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت میں عبوری طور پر لی گئی ہر جانے کی رقم پر جانے کی حتمی رقم میں شامل کر لی جائے گی ہر جانے اور قانونی کارروائی کے علاوہ یہ ٹربیونل ایسے شخص کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا ایسا کو ئی بھی پلیٹ فارم جس کو استعمال کرتے ہوئے مبینہ ہتک عزت کی گئی ہو اُس کو بند کرنے کا حکم بھی دے سکتا ہے ہتک عزت کی گئی ہو اُس کو بند کر نے کا حکم بھی دے سکتا ہے

ہتک عزت ہتک 2024 کے تحت ان ہتک عزت ٹریبیونلز کو انتہائی با اختیار بنایا گیا ہے جن کی کار وائی کو روکنے کے لئے کوئی عدالت حکم امتناع جاری نہیں کر پائے گی پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے علاوہ صحافتی تنظیموں نے اس قانون کے منظور کئے جانے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے

۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون پاکستان میں آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کے خلاف ہے اور اس کو لوگوں کی آواز بند کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں موجود صحافیوں نے بل کے منظور کئے جانے کے موقع پر پنجاب اسمبلی سے احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ بھی کیا تھا پنجاب حکومت کا موقف ہے کہ اس قانون کا مقصد فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکناہے پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود تک عزت قانون 2024 کے مسودے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس کو لگے کہ اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ سول قوانین کے تحت مبینہ ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے

(اس سے پہلے اسے یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان ہوا ہے مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر آوازیں اشارے علامات یا تحریریں نشر کر ے گا۔ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور اپلیکیشنز میں فیس بک ایکس یا ٹویٹرانسٹا گرام واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں

پنجاب میں منظور کئے جانے والے نئے قانون کے مطابق ہتک عزت سے مراد غلط یا جھوٹ پر مبنی بیان کی اشاعت نشریات اور پھیلاؤ ہے جس سے کسی شخص کو لگے کہ اس کی ساکھ مجر وح ہوئی ہے یا اسے دوسروں کی نظروں میں گرایا گیا ہے یا اسے غیر منصفانہ تنقید اور نفرت کانشانہ بننا پڑا ہے قانون کے مطابق ہر ایسا بیان ہتک عزت کے زمرے میں آتا ہے چاہے اس کا اظہار زبانی کلامی کیا گیا ہو یا پھر تحریری اور تصویری شکل میں کیا گیا ہو چا ہے اس کے لئے عمومی ذرائع استعمال کئے گئے ہوں

یا پھر اس کے اظہار کے لئے الیکٹرانک اور دیگر جدید میڈیم، ذرائع یا آلات یا پھر سوشل میڈیا، کوئی آن لا ئن یا سوشل میڈیا ویب سائٹ،اپیلیکشن یا پلیٹ فارم استعمال کئے گئے ہوں قانون کے مطابق اس میں وہ بیانات یا اظہار بھی شامل ہوگا جو کسی مخصوص جنس سے تعلق رکھنے والے افراد یا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کیا گیا ہے۔ ہتک عزت قانون کے مطابق حکومت اس قانون پر عملدر آمد یقینی بنانے کے لئے جتنے ٹریبونلز ضرورسمجھے قائم کر سکتی ہے اور اس کے ممبران مقرر کر سکتی ہے ٹریبیونل کا ممبر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت
سے مقرر کیا جائے گا جہاں ممبر عدلیہ سے ہوگا

وہاں چیف جسٹس مسلسل تین نام حکومت کو بھجوائیں گے جن میں سے وہ ایک کو ممبر مقررکرے گی اور جہاں ممکنہ ممبر کا تعلق وکلا برادری سے ہوگا وہاں حکو مت چیف جسٹس کو تین نام تجویز کرے گا اگر وہ کسی بھی نام پر اتفاق نہیں کرتے تو چیف جسٹس وہ نام حکومت کو واپس بھجوائیں گے جو ایک نئی لسٹ بھیجے گی ہتک عزت ٹریبونل چھ ماہ کے اندر شکایت پر فیصلہ دینے کا پابند ہو گا کوئی بھی شخص مبینہ ہتک عزت کے واقعے کے ساٹھ دن کے اندر ٹربیونل میں شکایت جمع کروا سکتا ہے

درخواست گزار کو ہتک عزت کے دعوے کو حقائق کے ساتھ بیان کرنا ہوگا اور ساتھ ہی دو گواہان کا بیان حلفی بھی جمع کروانا ہوگا درخواست میں اس بیان کو واضح طور پر بتانا ہوگا جس کی وجہ سے اس کو لگتا ہے کہ اس کی ساکھ مجروح ہوئی اور وہ کتنا ہرجانہ لیناچاہتا ہے ٹربیونل سمن کے ذریعے اس شخص کو طلب کرے گا جس کے خلاف الزام عائد کیا گیا ہے اپنا دفاع کرنے کے لئے ٹربیونل سے وہ شخص پہلی پیشی کے تیس دن کے اندر اپنے خلاف الزامات کا دفاع کرنے کی اجازت لے گا ٹریبیونل ساٹھ دنوں کے اندر اندر درخواست پر فیصلہ کر نے کا پابند ہوگا ہتک عزت کے قانون کے مطابق اگر ہتک عزت کی در خواست کسی ایسے شخص کے خلاف ہے جو کسی آئینی عہدے پر فائز ہے تو اس کے خلاف کاروائی ٹربیونل نہیں کر ے گا

بلکہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک سنگل ممبر خصوصی ببینج قائم کرے گا آئینی عہدے کے حامل افرادمیں صدر وزیر اعظم، وزرا ئے اعلیٰ گورنر،سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے مخبر اور چیف جسٹسز، پاکستانی افواج کے سر براہان وغیرہ شامل ہیں۔ قانون کے مطابق کوآئینی عہدوں پر فائز افراد کے خلاف درخواست پر کارروائی لاہور ہائی کورٹ کا سنگل ممبربینچ قائم کرے گا جس کی تشکیل لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کر یں گے اس کی کاروائی کے لئے وہی اصول اپنائے جائیں گے جو اس قانون کے تحت باقی ٹر بیونلزکر رہے ہوں گے

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر مین نے ایک بیان میں صوبہ پنجاب میں منظور کئے جانے والے ہتک عزت ایکٹ 2024 کے قانون پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ قانون کا مواد اور متن کئی حوالوں سے پریشان کن ہے ان کا مزیدکہنا ہے کہ اس قانون میں ہتک عزت کے دعووں کا فیصلہ کرنے کے لئے ایک متوازی ڈھانچہ تجویزکیا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان متوازی عالمی ڈھانچوں کو اس بات پر مسترد کرتا ر ہا ہے کہ وہ بنیادی حقوق اور منصفانہ عدالتی کا روا ئیوں کے عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کے منافی ہیں قانون کے مسودے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کو چیئر مین کا کہنا تھا کہ قانون میں ٹربیونل کو یہ اختیار دیا گیاہے کہ وہ ہتک عزت کی درخواست موصول ہو نے پر بغیر ٹرائل کے تیس لاکھ ر و پے ہر جانے کا عبور ی حکم سنا سکتا ہے

یہ اظہار رائے اور اختلاف رائے کی آزادی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا اور غالب امکان یہی ہے کہ ایسے احکامات معین طریقہ کار کی پیروی اور منصفانہ ٹرائل کویقینی بنا ئے بغیر جاری کئے جائیں گے اور اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہ بل عجلت میں پیش کیا گیا ہے اور اس سے قبل سول سو سائٹی اور ڈ یجیٹل اور مرکزی میڈیا سے مشاورت کے لئے وقت نہیں رکھا گیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں