چک بیلی خان کو تحصیل بنانے کا وعدہ وفا ہوگا؟

کی گرتی حرارت PTIاڈیالہ کی خاموش فصیلیں اور

اڈیالہ جیل کے گرد پھیلی خاموشی پچھلے چند ہفتوں میں غیر معمولی طور پر بھاری ہو چکی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو قید ہوئے دو سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، مگر اب کی بار صورتحال ایک نیا رُخ اختیار کر چکی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود عمران خان کی فیملی، وکلاء، سیاسی رفقاء اور پارٹی قیادت تک سبھی کی ملاقاتیں مکمل طور پر معطل ہیں عدالت نے منگل کے روز اہلِ خانہ اور وکلاء جبکہ جمعرات کو رفقاء کی ملاقات کی اجازت دے رکھی تھی، مگر زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جیل کے اندر ہونے والے مقدمات کی سماعتیں اب جیل سے باہر منتقل کر دی گئی ہیں،

جس نے قانونی عمل کو مزید سوالات کے گھیرے میں کھڑا کردیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ جو انتخاب کے بعد آٹھ مرتبہ ملاقات کیلئے جیل پہنچے، ہر بار خالی ہاتھ لوٹے ایک موقع پر پوری رات جیل کے باہر دھرنا بھی دیا یہ ایک علامتی احتجاج تھا، ایک ”خاموش چیخ” کہنے کو، مگر اس چیخ نے پورے سیاسی نظام میں گونج پیدا کی سوال یہ ہے کہ جب ملک کے ایک منتخب وزیر اعلیٰ کی بات سنی نہیں جا رہی، تو پھر عام کارکن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

اسی طرح عمران خان کی بہنوں نے بھی بارہا کوشش کی، رات گئے تک جیل کے دروازوں کے باہر موجود رہیں، مگر ملاقات کی اجازت نہ ملی یہ سب منظر کسی سیاسی کشمکش سے زیادہ ایک سماجی المیے کی تصویر پیش کرتے ہیں لیکن اس تمام صورتحال کا ایک پہلو اور بھی ہے بلکہ سب سے اہم سوال وہ ہے جس کا جواب خود تحریک انصاف کو دینا ہوگا اڈیالہ کے باہر کارکن کہاں ہیں؟ راولپنڈی وہ شہر ہے جو گزشتہ ایک دہائی میں تحریک انصاف کا مرکز اس کا سیاسی قلعہ اور سرگرمیوں کا اعصابی نظام سمجھا جاتا رہا ہے۔

یہاں سے تحریک انصاف نے ہمیشہ بلند ترین جلسے کیے، سب سے بڑے دھرنے منظم کیے، اور انتخابی نتائج میں بھی غیرمعمولی پرفارمنس دکھائی اگرچہ راولپنڈی شہر سمیت مضافات میں ایک مضبوط ووٹ بنک موجود مگر جب عملی اظہار کی بات آتی ہے تو منظرنامہ کچھ اور ہی نظر آتا ہے وزیراعلیٰ ہوں یا خان کی فیملی، جب بھی ملاقات کی کوششوں کے لیے جیل پہنچتے ہیں، تو وہاں چند سو کارکنوں سے زیادہ موجود نہیں ہوتے اور ان میں سے بیشتر وہ لوگ جو دوسرے شہروں سے آتے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ راولپنڈی ڈویژن میں درجنوں سابق ٹکٹ ہولڈرز موجود ہیں،

جنہوں نے لاکھوں ووٹ حاصل کیے، مگر اڈیالہ کے باہر شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے ہیں یہ عدم موجودگی محض سیاسی لاپرواہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اندرونی انتشار، مایوسی اور تنظیمی منجمد کیفیت کی علامت بن چکی ہے۔ اگر کارکن اپنے قائد کی قید کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے، اگر ٹکٹ ہولڈر اپنے ووٹروں کے احساسات کی نمائندگی کے لیے بھی سامنے نہیں آتے، تو پھر دھرنے تو کیا، کسی بھی منظم احتجاج کی کامیابی محض خواہش ہی رہ جاتی ہے اڈیالہ کے باہر ہر کمزور احتجاج، ہر چھوٹا اجتماع، ہر خالی راستہ یہ پیغام دے رہا ہے کہ تحریک انصاف اس وقت ایک گہرے تنظیمی بحران سے گزر رہی ہے۔ ایک ایسی جماعت جو کبھی لاکھوں کے مجمع اکٹھا کر لیا کرتی تھی، آج چند سو افراد بھی مسلسل جمع نہیں کر پا رہی یہ نہ صرف عمران خان کی سیاسی قوت کے لیے خطرہ ہے

بلکہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ پارٹی کا زمینی ڈھانچہ اپنی طاقت کھو رہا ہے تحریک انصاف کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ اگر کارکن متحرک نہیں ہوتے، اگر ٹکٹ ہولڈرز اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے، اور اگر سیاسی قیادت اپنے لوگوں کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہتی ہے تو پھر تحریک ایک لیڈر کے گرد تو گھوم سکتی ہے، لیکن زمینی سیاست میں زندہ نہیں رہ سکتی۔

اڈیالہ کی خاموش فصیلوں نے دو برس میں بہت کچھ دیکھا ہے، مگر آج جو منظر وہ پیش کر رہی ہیں وہ تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کا آئینہ بن چکا ہے اڈیالہ صرف ایک جیل نہیں، اس وقت یہ تحریک انصاف کی سیاسی کمزوریوں کا آئینہ بھی بن چکا ہے خاموش، مگر سب کچھ بے نقاب کرتا ہوا۔

بابراورنگزیب چوہدری