49

کیا ہر قربانی قبول ہوتی ہے؟

تحریر:: زرتاشیہ مہوش مغل
عید الاضحی سے پہلے مجھے بہت سے افراد نے بتایا کہ ہم ایک بیل اور دو بکرے قربان کریں گے کیونکہ ہم میاں بیوی دونوں بڑا گوشت نہیں کھاتے یہ سُن کر مجھے اندازہ ہو گیا

اور پھر عیدِ ایثار کے پہلے اور دوسرے دن اس کا نتیجہ بھی عیاں ہو گیا کہ جن جن لوگوں نے بیل اور دو بکرے لیے تھے انہوں نے صرف بڑا گوشت تقسیم کیا

جب کہ چھوٹا گوشت صرف اپنے لیے رکھ لیا یا زیادہ سے زیادہ بیٹیوں کو بھجوایا۔یہ وہ لوگ ہیں جو صاحب حیثیت ہیں یہ تھوڑا عقل سے کام لیں تو ان کو معلوم ہو گا کہ چھوٹے گوشت کو صاحب حیثیت ہو کر اگر یہ اس قدر نایاب سمجھ رہے ہیں تو اندازہ لگائیں غریب کی اس تک رسائی کتنی مشکل ہو گی۔ اور قربانی تو اپنی عزیز ترین چیز کی ہوتی ہے جب آپ عزیز ترین چیز کو چھپا چھپا کر رکھیں گے

تو آپ بھول میں ہیں کہ آپ کی قربانی قبول ہوتی ہوگی محض تکبیر پڑھنے سے قربانی قبول نہیں ہوتی۔ کیونکہ آپ قرابت داروں اور مسکینوں کے حصے کو عدل و انصاف سے تقسیم نہیں کرتے بلکہ خیانت سے کام لیتے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جو صاحب حیثیت افراد قربانی کرتے ہی

ان کے مستحق رشتہ دار (جو قربانی نہیں کرتے)چونکہ کچھ فاصلے پہ رہائش پذیر ہوتے ہیں مگر تپتی دھوپ سے بچنے کے لیے گاڑی یا موٹر سائیکل پر جا کر ان کو گوشت دینے کے بجائے لالچ میں آکر وہ حصہ خود ہڑپ کیا جاتا ہے اس سے گھٹیا خیانت کی مثال مجھے نہیں نظر آئی جانور اللہ کا نام اللہ کا مگر ہوس اپنے پیٹ کی

۔ ایسے لوگ وہ حصہ خود کھا لیتے ہیں تو ان کی قربانی بھی قبول نہیں ہوتی۔ عید کے پہلے دن کا ایک واقعہ بیان کررہی ہوں اور یہ واقعہ ہمارے معاشرے کا عکس ہے ایک شخص جو خود مستقل طور پر بیرون ملک مقیم ہے وہ ہر عید پر اپنے چچا زاد بھائی کو اس بات کا پابند بناتا ہے

کہ اسکے بھیجے ہوئے جانور کو محلے کے نادار لوگوں میں اور دوست احباب میں تین برابر حصوں میں تقسیم کرے مگر اس شخص کا جب یہ عمل دیکھا تو دل دکھی ہوا

اس کے پڑوسی کیا دیکھتے ہیں کہ نماز عید سے پہلے پہلے جانور ذبح کر کے اس شخص کے بچے اوجھڑی باہر پھینک رہے تھے تاکہ کسی کو خبر نہ ہو اور وہ سارا گوشت ٹھکانے لگا سکیں۔دو چار گھروں میں گوشت بھیج کر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم نے آپ کا خریدا ہوا جانور قربان کر کے تقسیم کر دیا۔

یاد رکھیے!! صدقات خیرات اور زکوۃ بھیجنے سے پہلے یہ بھانپ لیا کریں کہ وہ شخص لین دین میں کیسا ہے جس کے معاملات لین دین میں درست نہ ہوں اس کو یہ عظیم کام مت سونپا کیجیے۔بچپن سے نصاب کی کتابیں پڑھتے آئے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار کیا

اور بیٹے نے اللہ کی رضا مندی میں رضا مند ہو کر سر تسلیم خم کیا۔ مگر اسکی اصل کیا‘ مقصد کیا ہے‘فضیلت کیا ہے یہ ہم بھول چُکے ییں۔ابوخثیمہ زہیر (بن معاویہ) نے اسود بن قیس سے حدیث بیان کی، کہا:

مجھے حضرت جندب بن سفیان (بجلی) رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید الاضحیٰ منائی، آپ نے نماز پڑھی اور آپ اس (نماز کے بعدخطبہ، دعا وغیرہ) سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ آپ نے قربانی کے جانوروں کاگوشت دیکھا جو نماز پڑھے جانے سے پہلے ذبح کردیے گئے تھے،

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:: جس شخص نے نماز پڑھنے سے۔یا (فرمایا:) ہمارے نماز پڑھنے سے۔پہلے اپنا قربانی کا جانور ذبح کرلیا وہ اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔”ترقیم فوادعبدالباقی: 1960کسی کی مدد کرنے کے لیے صاحب حیثیت کے ساتھ ساتھ صاحب دل یعنی دل کی امیری ضروری ہوتی ہے

ورنہ آپ کی نیت میں فتور آجائے گا تو خیرات‘صدقات‘زکوۃ اور قربانی کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے,انما الا عمال بالنیات۔ سخاوت کی صفت کو اپنایا کریں اور دل کھول کر خدا کی رضا کے لیے دیا کیجیے آئیے آپ کو بتاتے ییں سخاوت میں بڑا کون ہوتا ہے۔کسی نے حاتم طائی سے پوچھا: ”کیا کبھی ایسا ہوا کہ کوئی شخص جود و سخا میں آپ پر سبقت لے گیا ہو؟”حاتم طائی نے جواب دیا

: ہاں ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مجھے قبیلہ طے کے ایک یتیم کے گھر ٹھہرنے کا موقع ملا۔ اس کے پاس دس بکریاں تھیں۔ اس نے میری مہمانی کی خاطر ایک بکری ذبح کی اور دسترخوان پر میرے آگے اس کا مغز پیش کیا۔ مجھے مغز کا وہ حصّہ بہت لذیذ لگا اور میں نے کھانے کے ساتھ ہی کہا:”واللہ! یہ کس قدر لذیذ ہے”۔یتیم لڑکے نے جب میری زبان سے یہ الفاظ سنے تو اس نے ایک ایک کر کے ساری بکریوں کو ذبح کرکے میرے آگے پیش کر دیا۔

مجھے اس کا علم نہیں تھا کہ میری خاطر اپنی ساری بکریاں ذبح کردی ہیں۔جب میں نے واپسی کے لیے اس کے گھر سے نکلا تو میری نگاہ گھر کے اردگرد پھیلے خون پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے بکریوں کو ان کی رسیوں سمیت ذبح کر ڈالا ہے۔ میں نے اس یتیم سے مخاطب ہو کر کہا:

” تم نے ان ساری بکریوں کو کیوں ذبح کر ڈالا”۔وہ کہنے لگا:”سبحان اللہ! آپ) جیسے میرے مہمان(کو کوئی ایسی چیز اچھی لگے جو میرے قبضے میں ہو، اور میں بخل سے کام لے کر آپ سے اسے روک رکھوں؟ یہ عربوں کی شان میں ایک گستاخی اور عیب ہوگا’

‘۔حاتم طائی سے پوچھا گیا:”پھر آپ نے بطور عوض اس یتیم لڑکے کو کیا دیا؟”۔حاتم طائی نے کہا:میں نے اس یتیم کو تین سو سرخ اونٹنیاں اور پانچ سو بکریاں دیں:۔یہ سن کر لوگوں نے کہا:”پھر تو آپ اس سے زیادہ سخی ہوئے’۔حاتم طائی نے ان کے جواب میں کہا:’نہیں،بلکہ وہ یتیم مجھ سے زیادہ سخی تھا۔

کیونکہ اس نے اپنی ملکیت میں موجود سب کچھ سخاوت کر دی، جب کہ میں نے اینی ملکیت کا ایک چھوٹا سا حصّہ دیا)اس کا نام حاتم بن عبداللہ بن سعد بن الحشرج الطائی القحطانی ہے۔ یہ نجد کا رہنے والا تھا۔ نہایت بہادر اور دلیر تھا۔ شعر و شاعری سے خاصی دلچسپی تھی

۔ جودوسخا میں اس کی مثال نایاب تھی۔حاتم طائی کا نام زبان پر آتے ہی ایک عظیم اور بے مثال سخی کا تصور لوگوں کے ذہن و دماغ میں ابھر آتا ہے۔اس کی وفات رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے آٹھویں سال ہوئی۔دیکھیے: علامہ زر کلی کی کتاب: الائعلام)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں