کشمیر پکار رہاہے

آصف خورشید
یاران جہاں یہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہے جنت/
جنت نہ کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
کشمیر کی تحریک آزادی کا آغاز 18مارچ 1842کو اس المناک دن سے ہوتا ہے جب گلاب سنگھ ڈوگرہ نے 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض کشمیر کی جنت اراضی کو خرید لیا۔کشمیری غلام تو بن گئے مگر ا نہوں نے غلا می کو قبول نہ کیا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بہ تیغ بھی لڑتا ہے سپاہیں
وہ کشمیر جہاں کبھی پھول کھلتے تھے۔فضاؤں میں ابر پارے رقص کرتے تھے جہاں نرم ہواؤں کا گزر تھا۔مگر افسوس آج وہاں تاریکی اور سناٹا چھایا ہوا ہے۔ ایک کروڑ کشمیریوں پر انگارے برسائے جا رہے ہیں۔جہاں باد سحر تو آتی ہے لیکن ہزاروں صحراؤں کی تپش ساتھ لاتی ہے۔جہاں سرو سمن صدموں سے اپنے سر جھکائے سوچ میں گم ہیں۔جہاں صحن چمن میں پھول اور خوشبوکسی سازش کے ڈر سے دور دو ر رہتے ہیں جہاں اندھیری رات اپنے بال بکھیرے ہر روشنی کو ڈھانپ رہی ہے۔جہاں راتوں کی تنہائی اور دنوں کو بے بسی کا دور دور ہ ہے۔دیکھنے والے آنکھ کو شاید ہی کوئی گھر ایساملے جو ماتم کدے میں تبدیل نہ ہو چکا ہو۔میں پوچھتا ہوں دنیا کے تہذیب و تمدن کے علمبرداروں سے کیا تمہیں بھوک سے بلبلاتے بچوں کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں۔ان شیر خوار بچوں کے ہونٹوں کی لرزش نظر نہیں آتی جو اپنی ماؤں کے خالی سینوں کو ٹٹولتے ہیں۔کیا اقوام متحدہ کے ایوانوں میں کوئی گونج سنائی نہیں دیتی۔امن کے رکھوالو دنیا پوچھتی ہے سوال کرتی ہے کیا کشمیر کا غم دائمی ہے کیا اس خزاں کے لیے کوئی بہار نہیں کیا اقوا م متحدہ یونہی خاموش تما شائی بنی رہے گی۔
مٹ جائے گی مخلوق تو کیا انصاف کروگے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

اپنا تبصرہ بھیجیں