اسلام آباد(اویس الحق سے)ولی عہد و وزیرِاعظم سعودی عرب محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ’’ اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘پر دستخط کردیے ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصورکیا جائے گا۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کی طویل المدتی دوستی اور تعاون کا مظہر ہے، بلکہ یہ معاہدہ موجودہ عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں ایک غیرمعمولی سفارتی پیش رفت بھی ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے پاکستان اور سعودی عرب نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف داخلی سلامتی کے لیے سنجیدہ ہیں بلکہ خطے میں امن، استحکام اور باہمی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے بھی پُرعزم ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی اتحاد اس وقت ایک معنی خیز پیغام دے سکتا ہے کہ مسلم دنیا میں فلسطینی عوام کے حق میں اجتماعی موقف اختیار کیا جا رہا ہے۔ یہ اتحاد اسرائیل کے ممکنہ جارحانہ عزائم کے خلاف ایک بالواسطہ ڈیٹرنس (روک تھام) کے طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔
یہ معاہدہ اس وقت منظرِ عام پر آیا ہے جب دنیا بھر میں دفاعی شراکت داریاں تیزی سے نئی جہتیں اختیارکر رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا، خلیجی ممالک کے باہمی تعلقات، اسرائیل فلسطین تنازع، اسرائیل کا قطر پر حملہ اور افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کے تناظر میں، پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
معاہدے میں یہ شق کہ ’’ کسی ایک ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں ممالک کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا‘‘ ایک اسٹرٹیجک گہرائی اور عسکری عزم کی آئینہ دار ہے، جو بظاہر ایک اتحادی سیکیورٹی ڈھانچے کی بنیاد رکھتی ہے۔مشرقِ وسطیٰ اس وقت کئی سیاسی اتھل پتھل (instability) کا شکار ہے۔
سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں جہاں ایران سے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے، وہیں اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن پر بھی بات چیت کی گئی۔ ان پیچیدہ سیاسی معاملات میں پاکستان جیسا ملک، جو اسلامی دنیا میں ایک فوجی قوت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، سعودی عرب کے لیے ایک قابلِ اعتماد اسٹریٹجک پارٹنر بن سکتا ہے تاکہ وہ غیر یقینی صورتحال میں اپنے دفاعی مفادات کا تحفظ یقینی بنائے۔
بلاشبہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ پاک سعودی اسٹرٹیجک شراکت داری کی گہرائی اور دفاعی تعاون کی مضبوطی کو ثابت کرتا ہے۔ آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے معاہدے کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، معاہدے سے پاکستان اب حرمین شریفین کے تحفظ میں سعودی عرب کا پارٹنر بن گیا ہے۔
سعودی عرب اور پاکستان فوجی تعاون کی بھی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، جس کا آغاز 1967 میں ایک دفاعی پروٹوکول کے معاہدے پر دستخط سے ہوا تھا۔ اس کا دائرہ کار سعودی عرب میں پاکستانی فوجی مشیروں اور ٹرینرز کی تعیناتی اور سعودی عرب کے فوجی افسران کو پاکستان کی فوجی اکیڈمیوں میں تربیت کے مواقعے فراہم کیے جانے پر مشتمل تھا۔ اسی طرح 1982 میں ہونے والے ایک دفاعی معاہدے نے باہمی تعاون کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی جس میں دفاعی مقاصد اور ٹریننگ کے لیے مملکت میں پاکستانی فوجیوں کی تعیناتی اور دفاعی پیداوار کے علاوہ مشترکہ مشقوں کے نکات بھی شامل تھے۔
اس کے بعد دونوں ممالک کے رہنما اور دفاعی حکام دفاع کے حوالے سے تزویراتی پالیسیوں کو باہمی طور پر مربوط بنانے کے لیے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ماضی قریب میں مزید اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ دفاعی پیداوار میں خود انحصاری سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سعودی وژن 2030 کا اہم ستون ہے۔ 1989 میں جب عراق نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو اپنے بارڈرز پر دفاعی خطرات کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت پاکستان نے فوراً اپنی افواج سعودی عرب بھجوائیں۔
1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان بہت سخت معاشی مشکلات کا شکار ہوا تو ان حالات میں سعودی عرب نے پاکستان کی خام تیل اور دیگر ذرائع سے بھرپور مدد کی۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت پاکستان کو سعودی عرب کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع فراہم کیے گئے ہیں جن میں پاکستانی کارکنان کی سعودی عرب میں جاری بڑے منصوبوں پر ملازمت بھی شامل ہے۔
اس وقت بھی کثیر تعداد میں پاکستانی سعودی عرب میں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کر رہے ہیں جو معاشی طور پر پاکستان اور ان کے گھرانوں کے لیے انتہائی اہم اور مددگار ہے۔سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ گہرے تعلقات مشترکہ تاریخ اور باہمی مفادات میں جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں ہی اسلام کے لیے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔
سعودی عرب مسلمانوں کے عقیدے کا مرکز ہے تو پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان ذاتی تعلقات نے یکجہتی کو آگے بڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا اور حالیہ برسوں کے دوران مشکل حالات میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی رہنما اور فوجی قیادت موجودہ معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے اور ماضی کی طرح مملکت کی قیادت خوشحال مستقبل کے لیے کی جانے والی پاکستان کی جدوجہد کی حمایت کرتی ہے۔
سعودی عرب کے وزیرِاعظم اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، جدید سعودی عرب کے معمار، ایک عہد ساز شخصیت اور عالمِ اسلام کے لیے نویدِ سحر ہیں۔ ان کی قیادت میں سعودی عرب میں ایک نئی صبح کا آغاز ہو چکا ہے، جہاں ترقی کے افق روشن ہیں، جہاں جدیدیت اور روایات ہم آہنگ ہو کر ایک نیا سماں باندھ رہی ہیں۔
ان کی اصلاحات، ترقیاتی منصوبے اور عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات سعودی عرب کو عالمی سطح پر ایک مثالی ملک بنا رہے ہیں، وہ نہ صرف عرب دنیا بلکہ بین الاقوامی سیاست میں بھی ایک اہم شخصیت بن چکے ہیں۔ وہ ایک مردِ حوصلہ ہیں، جن کے فیصلے جرات کی علامت ہیں، جن کی سوچ وسعتوں کی امین ہے اور جن کی نگاہیں مستقبل کے دریچوں میں امید کے چراغ روشن کر رہی ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تاریخی طور پر بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی اور اقتصادی تعاون کی بنیاد پر استوار رہے ہیں۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں سعودی عرب کی مدد کی اور سعودی عرب نے بھی مالی امداد، تیل کی فراہمی، سرمایہ کاری اور ہزاروں پاکستانیوں کو روزگار فراہم کر کے پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا۔ تاہم، یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ دونوں ممالک نے ایک باقاعدہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جو کہ نہ صرف عسکری شعبے میں تعاون کو مضبوط کرے گا، بلکہ دونوں ممالک کو عالمی سیاست میں ایک نئی پوزیشن پر لاکھڑا کرے گا۔
اس معاہدے سے پاکستان کو جہاں جدید عسکری ٹیکنالوجی، انٹیلیجنس تعاون اور مشترکہ تربیت کے مواقع حاصل ہوں گے، وہیں سعودی عرب کو پاکستان کی جنگی مہارت، تجربہ کار افرادی قوت اور نیوکلیائی طاقت کی حامل سیکیورٹی پالیسیوں سے فائدہ حاصل ہوگا۔ دونوں ممالک مشترکہ فوجی مشقیں کر سکتے ہیں، سرحدی دفاع کو مربوط بنا سکتے ہیں اورکسی بھی بیرونی خطرے کی صورت میں متفقہ لائحہ عمل اختیار کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ اس دفاعی معاہدے کی کامیابی کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ دونوں ممالک اپنی ترجیحات کو کتنی دور اندیشی، سنجیدگی اور تسلسل سے آگے بڑھاتے ہیں۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کسی بھی معاہدے کی کامیابی صرف اس کے کاغذی الفاظ پر نہیں بلکہ اس کے عملی نفاذ، شفافیت اور عوامی مفاد سے ہم آہنگی پر منحصر ہوتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ یقیناً ایک بڑی سفارتی اور دفاعی پیش رفت ہے، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سمت دے سکتا ہے، مگر اس معاہدے کی کامیابی کے لیے متوازن حکمتِ عملی، سفارتی تدبر، اقتصادی بصیرت اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دینا لازم ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو دفاع سے آگے بڑھ کر ترقی، امن اور علاقائی استحکام کے ایک جامع وژن میں ڈھالنا ہوگا، تاکہ یہ معاہدہ صرف تاریخ کا حصہ نہ بنے، بلکہ ایک مؤثر اورکامیاب اشتراکِ عمل کی روشن مثال بن سکے۔
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نہ صرف ایک دوسرے کی سیکیورٹی کو مضبوط بناتا ہے بلکہ خطے میں عسکری توازن، سفارتی رابطہ کاری اور استحکام کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ یہ دفاعی اتحاد دراصل غیر یقینی عالمی حالات کے مقابل ایک حفاظتی ڈھال بھی ہے اور اسلامی دنیا میں باہمی تعاون کے فروغ کی ایک امید بھی۔