کالعدم تنظیمیں اور ریاستی اقدامات

طاہر یاسین طاہر
پاکستانی ریاست دہشت گردوں کے لگائے زخموں سے چور چور ہے۔ہمارا مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہم نے کم تر سیاسی مفادات کی خاطر دہشت گرد تنظیموں سے صرفِ نظر کیا۔وفاق کا مؤقف آدھے عشرے سے سامنے ہے کہ لشکرِ جھنگوی کے بڑے بڑے لیڈر پنجاب میں ہیں۔سانحہ ء کوئٹہ کے بعد وفاقی وزیرِ داخلہ پھر سے گرج رہے ہیں کہ اگر پنجاب حکومت نے لشکرِ جھنگوی کیخلاف کارروائی نہ کی تو وفاق از خود یہ کارروائی کرے گا۔سوال یہ ہے کہ وفاق کو کارروائی کے لیے اور کتنے معصوموں کا خون چاہیے؟دہشت گردوں کے ہمدرد اب پہلے سے زیادہ سر گرم نظر آتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کسی ایسے اتحاد کی تلاش میں ہیں جو ان کے ساتھ مل کر یہ نغمہ گائے کہ طالبان سے صرف مذاکرات ہی ریاست کے مفاد میں ہیں۔ ادھر طالبان نے بھی اپنے ترجمان احسان اللہ احسان کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن،جماعت اسلامی کے امیر منور حسن اور ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف سے رابطے اور مذاکرات کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا یہ تینوں حکومتی نمائندے ہیں؟آئندہ کا منظر نامہ یہ بنتا نظر آتا ہے کہ ایک طرف مذکورہ تینوں سیاسی راہنما طالبان سے مذاکرات بھی کر رہے ہوں گے اور دہشت گردی کی مذمت بھی۔سوال یہ بھی بنتا ہے کہ منور حسن احسان اللہ احسان سے مذاکرات پر آمادہ کیوں ہوں گے؟ان کا مؤقف تو یہ رہا کہ یہ کوئی فرضی ترجمان ہے جو طالبان کے ’’جہاد‘‘ کو بدنام کر رہا ہے۔ہمارا مقصد سوالات کی بوچھاڑ نہیں لیکن کیا انتخابات کے قریب، ریاست کے دشمنوں سے مذاکرات کے لیے بیقراری ہمارے اس قومی مؤقف کے فقدان کی علامت نہیں جو دہشتگردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے پایا جاتا ہے؟ سیاسی سطح پر ہم آج تک دہشت گردی کیخلاف جاری اس جنگ میں ہم آہنگ نہ ہو سکے۔پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی کے علاوہ دیگر پارٹیوں نے اس جنگ کی مخالفت کی۔ اسے امریکہ کی جنگ کہا اور خود کش حملوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو امریکی ڈرونز کا رد عمل قرار دیا اب تو اے این پی بھی اپنے ’’شہیدوں کا خون معاف‘‘ کرنے پر بضد ہے۔ہمہ وقت دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کرنے والی سیاسی قیادت نے ان کے حوصلوں کو مہمیز کیا۔ وہ بڑھ کر حملہ آور بھی ہوتے ہیں اور اپنی شرائط پر مذاکرات بھی چاہتے ہیں۔ ن لیگ اپنی چند سیٹوں کی خاطر ان کے سامنے ڈھیر ہو گئی جن کے منہ انسانیت کا خون لگ چکا ہے۔کچھ لمحوں کیلئے وزیرِ داخلہ کی بات کو الزامات ہی کہہ لیتے ہیں مگر ان غیر جانبدار تجزیہ کاروں کی بات کیسے رد کی جائے جو کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت لشکرِ جھنگوی کی پشت پناہ ہے؟اور اگر پنجاب حکومت پر یہ صرف الزام ہے کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہ ہے تو اتنا بتا دیا جائے کہ سانحہء کیرانی روڈ میں استعمال ہونے والا کیمیکل لاہور سے باہر کیسے لے جانے دیا گیا؟ لاریب لشکرِ جھنگوی اور طالبان پاکستان کی سلامتی کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔صوبائی حکومت پر اس وقت وفاق سمیت دیگر امن پسند حلقوں کا دباؤ ہے۔ اب اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے لشکرِ جھنگوی کے دہشت گرد ملک اسحاق کو گرفتار کر لیاگیا۔مگر چال یہاں یہ چلی گئی کہ اس کی گرفتاری سولہ ایم پی او کے تحت عمل میں لائی گئی اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ریاست کا یہ مطلوب دہشت گرد ایک ماہ سے زیادہ منظر سے غائب نہ رہے۔اپنی گرفتاری سے قبل ملک اسحاق کا پریس کانفرنس کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کی ’’نظر بندی‘‘ خاص حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔باوجود اس کے کہ لشکرِ جھنگوی سانحہء علمدار روڈ اور سانحہء کیرانی روڈ کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے،اس تنظیم کے سربراہ کو صرف ایک ماہ کے لیے نظر بند کر نا انصاف پسند حلقوں کے نزدیک افسوسناک ہے۔کیا یہ ریاستی قوانین کی توہین نہیں کہ ایک دہشت گرد دکٹری کا نشان بناتے ہوئے گرفتاری دے؟دراصل حکومتیں ہی ریاستی مفادات کی محافظ ہوا کرتی ہیں،لیکن جہاں سیا سی قیادت ریاستی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی مفادات کی نگران بن جاتی ہے وہاں ریاست کے وجود کو وحشی درندے اتنا مجروح کرتے ہیں کہ ریاست اپنی پہچان کھو دیتی ہے اور اس کا ذکر تاریخ کے چند صفحات کا رزق بن جایا کرتا ہے۔ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستانی معاشرہ اس وقت دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہے اور سیاسی قیادت ریاست کے مطلوب دہشت گردوں سے مل کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہی ہے۔اس وقت ریاست اور سیاسی قیادت کے مفادات جدا جدا نظر آ رہے ہیں۔پاکستان کے امن پسند معاشرے کو ان چالوں کا ادراک کرنا ہو گا جو انتہا پسند قوتوں کے ساتھ مل کر چلی جا رہی ہیں۔ہم فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ریاست کے مفادات ہی بہر حال اولین ترجیح رہے اور ریاست دہشت گردوں کیخلاف بے رحم آپریشن کی متمنی ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ سے لاکھ اختلاف سہی مگر لشکرِ جھنگوی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ اور تعلقات بارے ان کی بات میں وزن معلوم ہوتا ہے۔اگر اس وقت بھی کالعدم تنظیموں کیخلاف بھر پور کارروائی نہ کی گئی تو ریاست کے آئندہ منظر نامے میں یہ تنظیمیں اپنی مرضی کا رنگ بھریں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں