210

ڈاکیا‘ اولین مواصلاتی نظام کا مربوط نام

ڈاک، ڈاکیا، ڈاک خانہ اورخط یہ ایسے نایاب الفاظ ہیں جن سے ماضی کی یادیں جڑی ہیں اس دور میں مواصلاتی نظام نہ ہونے سے محض خطوط ہی انسانی رابطے کا اہم ذریعہ تھے ڈاکیا ڈاک کے محکمے کا ملازم ہوتا تھا

جو سائیکل یا پیدل گھرگھر جا کرخطوط تقسیم کرتا تھا اس دور میں اندرون ملک اور ولایت سے اپنوں کا حال احوال دریافت کرنے کیلئے ایک دوسرے کو خط لکھنے کا رواج تھا تاہم اس دور میں خط اور منی ارڈر وصول ہوتے ہوتے کئی دن اور ماہ لگ جاتے تھے محکمہ پوسٹ آفس کی جانب سے خط عوام الناس کی دہلیز تک پہنچانے کیلیے

ایک تنخواہ دار ملازم ہوتا تھا جسے ڈاکیا کہتے تھے تاہم اب فیکس،جی میل، ٹی سی ایس سروس اور موبائل فون کے زریعے سیکنڈوں میں پیغامات دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتے ہیں پیغام رسانی کے جدید طریقوں کی ایجاد سے اب ڈاکیا کیساتھ خط ڈالنے والی لیٹر بکس زنگ آلود اور ویران ہوچکے ہیں اس دور میں ڈاکیا کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ 90 کی دہائی کے آخر میں ہماری تیسری جماعت کے سلیبس کی اردو کی کتاب میں دیکھو ڈاکیا آیا

کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی ہوئی تھی جسے ہم بڑی لگن سے اونچی آواز میں جھوم کر پڑھتے تھے (دیکھو ڈاکیا آیا،اپنے ساتھ خط لایا‘گرمی ہے یا سردی ہے،اسکی ایک ہی وردی ہے) دیگر علاقوں کی طرح ہمارے گاؤں اراضی خاص میں بھی مقامی سطح پر ذیلی پوسٹ آفس کی ایک شاخ قائم تھی جسکو آپریٹ کرنے کی ذمہ داری اس دور کے مشہور مقامی تاجر میراں داد کے سپرد تھی

اب انکے بیٹے محمد یونس صاحب یہ ذمہ داری نبھاتے ہیں لیکن اب ڈاکیا کا نظام ختم ہوچکا ہے اس دور میں انکی دوکان کے بالمقابل ایک توت کے درخت کیساتھ لیٹر بکس نصب ہوتا تھاخط بھیجنا ہو تو اس لیٹر بکس میں ڈال دیتے تھے

اور براستہ ساگری خطوط جاری اور وصول کیے جاتے تھے اس ڈاکخانہ میں ہمارے اردگرد کے دیہات میں ڈاک کی ترسیل کیلئے پوسٹ ماسٹر فقیرحسین مرحوم تعینات تھے جو روزانہ کی بنیاد پر موضع اراضی خاص کے گردونواح میں خط گھر گھر پہنچانے کی ڈیوٹی سر انجام دیتے تھے پوسٹ ماسٹرفقیرحسین مرحوم اس دور میں گاؤں کے پڑھے لکھے افراد میں شامل تھے آپ یوسی بشندوٹ کے گاؤں اراضی گوڑہ کے رہائشی تھے

ماسٹر فقیرحسین مرحوم کے والد کا نام کریم دادجبکہ دادا کا نام ہاشم خان تھا آپکا شجرہ نسب کلیال بھٹی قبیلے کے قدیمی شجرہ اراضی بندوست 1883/84 کے قانون گو دفتر راولپنڈی کے ریکارڈ کے مطابق چودھویں پشت میں اوپر جاکر اراضی خاص میں آباد کلیال قبیلے کی شخصیت واصل سے جا ملتا ہے

آپکے دوسرے بھائی کا نام نزیرحسین تھا،اپ سڈول اور سمارٹ جسامت رکھتے تھے آپ پہلے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملازم تھے تاہم کچھ وجوہات کی بنا پر آپکو نوکری چھوڑنا پڑی اور بعد ازاں محکمہ ڈاک میں بھرتی ہو گئے آپ صبح سویرے اپنی ڈیوٹی پر روانہ ہو جاتے اور پیدل گھر گھر جاکر خط بانٹتے تھے شدید گرمیوں کی تپتی دھوپ اور جھاڑے کے موسم میں بھی آپکو اپنی ڈیوٹی احسن طریقے سے نبھاتے دیکھا گیا ہے

جن کو خط پڑھنا نہیں آتا تھا آپ خود اونچی آواز میں خط پڑھ کر سناتے تھے ماسٹر فقیرحسین صاحب صبح روزانہ اخبار پڑھنے گورنمنٹ سکول اراضی خاص میں آتے تھے اور دور کے دیہات کے خطوط سکول میں زیر تعلیم بچوں کے حوالے کر دیتے تھے تاکہ متعلقہ دیہات کے لوگوں تک اپنے عزیزوں کے لکھے ہوئے

خطوط ان تک پہنچ جائیں فقیرحسین صاحب شفیق اور بڑے نرم دل کے مالک تھے ڈاکیا کی خاکی وردی مخصوص تھی تاہم فقیرحسین صاحب کو کبھی وردی پہنے نہیں دیکھا اس دور میں ڈاکیا خطوط، دستاویزات، ٹیلی گرام، پارسل وغیرہ سے بھرا ایک بیگ کندھے کیساتھ عموماً لٹکائے رکھتے تھے فقیر حسین صاحب کے پاس بھی ایک خاکی رنگ کا تھیلا ہوتا تھا

جس میں خطوط ہوتے تھے بعض ڈاکیے سائیکلوں پر بھی خطوط وغیرہ تقسیم کرتے نظر آتے تھے لیکن فقیر حسین صاحب نے ہمیشہ پیدل سفر طے کر کے خطوط گھر گھر پہنچاتے تھے ایک ڈاکیا کچھ لوگوں کے لیے خوشی تو کچھ کیلئے غمی کے تار بھی لے کر آتا تھا کیونکہ زندگی میں غم اور خوشی تو ساتھ ساتھ چلتے ہیں

گزرتے وقت کے ساتھ ڈاکیا کی اہمیت اب کافی حد تک کم ہو چکی ہے اب پوسٹ آفس کے اندر ہی تمام امور سر انجام پاتے ہیں تاہم بعض علاقوں کے دور دراز مقامات تک ڈاکیا خطوط پہنچانے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور اسی محکمہ سے مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوئے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں