مسعود جیلانی
چک بیلی خان میں بڑے ہسپتال کا مطالبہ تو کافی عرصے سے جاری ہے سسک سسک کر نے مرنے والے غریب عوام ہر ناگہانی موت پر اس ضرورت کا رونا روتے ہیں لیکن بیرون ملک جا کر علاج کروا لینے کی سہولت رکھنے والے اربابِ اختیار کو اس مطالبہ کی پروا تک نہیں ہوتی وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کون سی گلی پکی کروائیں گے تو اس سے ملحقہ درجنوں گھر تھوڑے سے خرچے میں ان کے ووٹربن جائیں گے انھیں خیال تک نہیں ہوتا کہ بطور لیڈر انہیں قیامت کے دن اپنے اختیارات کا حساب دینا ہو گا یہ لوگ صرف اپنے جلسوں میں تقریروں کے دوران قرآنی آیات پڑھ کر لوگوں کے جذبات ابھار کر ووٹ لیتے ہیں اور جب انہیں ہسپتال کی ضرورت کا کہا جائے تو کہتے ہیں کہ کہتے ہو توبلڈنگ ہم بنا دیتے ہیں لیکن یہاں عملہ جو نہیں آتاحالانکہ یہاں کے موجود عملہ کو بھی اپنے ذاتی انتقام کے لئے تبدیل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے یہاں ہر نا گہانی موت یہاں بڑے ہسپتال کی ضرورت کی یاد دلاتی ہے آج جس نا گہانی موت کا میں ذکر کر رہا ہوں اسے دیکھتے ہوئے بھی کئی جذباتی لوگوں نے بھی موقع پر ایسی قیادت کو ووٹ نہ دینے کی قسمیں کھائیں جو ہسپتال کا یہ دیرینہ مطالبہ پورا نہیں کرتی اخلاق احمد چک بیلی خان سے ملحقہ موضع بینس سے تعلق رکھنے والا پنجاب پولیس کا کڑیل اور خوبصورت جوان تھا پولیس تھانہ صادق آباد راولپنڈی میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا کسی جوان کی کڑیل جوانی کا خوبصورت حسن دیکھنا ہو تو اخلاق احمد ان میں پہلی صفوں میں نظر آتا تھا مجھے یقین ہے کہ محکمہ پولیس کے افسران نے بھی اس کی اسی انفرادیت کی بنیاد پر اپنی پہلی نظروں میں ہی سلیکٹ کر لیا ہو گا خوش اخلاق دوست مزاج اخلاق احمد اپنے دوستوں کے ساتھ چک بیلی خان کے ایک ہوٹل میں دعوت میں شریک تھا کہ اچانک اسے سینے میں درد ہوا جس کے باعث وہ کرسی سے گر پڑا دوستوں نے اٹھا کر فوراً ہسپتال ڈاکٹر کے پاس پہنچانے کے لئے دوڑ لگائی خبر سن کر اخلاق احمد کے گھر والے بھی پہنچ گئے سب نے بھاگ دوڑ کی اور چک بیلی خان شہر کی گلی گلی سے اخلاق احمد کی زندگی کی بھیک مانگی لیکن صرف ایک میڈیکل کی جان بوجھ رکھنے والے شخص نے انھیں بتایا کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے گھر والے راولپنڈی کے لئے دوڑے لیکن راولپنڈی ہسپتال توپہلے ہے 80کلومیٹر کے فاصلے پر تھا ابھی گھر والوں نے راولپنڈی کا رخ کیا ہی تھا کہ اخلاق احمد کی روح پرواز کر گئی پھر کیا ہوا کہ اخلاق احمد کے گھر والوں اور عزیز اقارب کی چیخیں اور بین لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو رہے تھے متوفی اخلاق احمد کا 70کی دہائی میں زندگی کا سفر کرنے والا بوڑھا والد غلام محی الدین کبھی اخلاق کے تین بچوں کو ایک کے بدلے تین کہہ کر خدا کا شکر ادا کرتا اور اپنے دل کو تسلی دیتا اور پھر ساتھ ہی اخلاق احمد کا کوئی نعم البدل نہ ہونے کا کہہ کر پھر رونا شروع ہو جاتا یہ مناظر لوگوں کے سینوں کو چیر رہے تھے شاید یہ اثر اگر نہیں پہنچا تو ان لوگوں تک نہیں پہنچا ہو گا جواپنی کھانسی کے علاج کے لئے بھی بیرون مل جاتے ہیں جنازہ سے واپسی پر راستے کے ہوٹلوں اور چو ک چوراہوں پر کئی لوگوں کو میں قسمیں کھاتے وہوئے وعدے وعید کرتے ہوئے دیکھا کہ آئندہ وہ کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دیں گے جو انہیں صحت جیسی بنیادی سہولت سے محروم رکھے گایہ لوگ شاید وقت آنے پراپنی ان قسموں اور وعدوں کو ارد گرد کے سیاسی گرمی کے ماحول میں بھول جائیں لیکن وقتی طور پر ان کے جذبات سے اندازاہ ہو رہا تھا کہ ان کے لئے اخلاق احمد کتنا قیمتی انسان تھا صحت کی سہولت دینا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے لہذٰا میں ان لوگوں سے ضرور کہتا ہوں جولوگوں کے ووٹ سے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں وہ خوفِ خدا کریں اور ان لوگوں کے لئے بڑا ہسپتال بنوائیں اور اگر اپنے اختیار میں نہیں تو و ہ اسمبلیوں میں جا کر ان کی آواز بلند کریں
121