چوہدری کی شکت کیلئے قوتیں متحرک ہوگیں

آصف شاہ نمائندہ پنڈی پوسٹ
عام انتخابات آئندہ سال متوقع ہیں اسی تناظر میں ملک میں سیاسی ہلچل کا آغاز ہوچکاہے اور سیاسی پنچھی ابھی سے اڑانیں بھر بھر کر دوسری پارٹیوں کا رخ کر رہے ہیں سب سے زیادہ رخ تحریک انصاف کی جانب دیکھنے میں آرہا ہے ملکی سیاست کی طرح این اے باون میں بھی اندرونی طور پر جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا ایک ہی مرکز ہے کہ کسی طرح چوہدری نثار علی خان کو ہرایا جائے تحریک انصاف تو پیش پیش تھی لیکن گزشتہ ہفتہ پیپلز پارٹی نے بھی اس پر عملی طور پر کام شروع کر دیا ہے پیپلز پارٹی کے لیے ملک بابر اعوان نے اس حلقہ سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تھا اور وہ ہلکی پھلکی اس کی پریکٹس بھی کر رہے تھے لیکن اب شنید ہے کہ اس حلقہ سے کھو کھر برادران میدان سیاست میں آئیں گے اور اس پر مشاورت بھی جاری ہے اندرونی زرائع کا کہنا ہے حاجی نواز کھوکھر خود میدان عمل میں نہیں آئیں گے بلکہ اس کے لیے مصطفے نواز کھوکھر کو سامنے لایا جائے گا اسی حوالہ سے چند ایسے نام جو اس وقت چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑے ہیں ان کو بھی ٹچ کیا گیا ہے اور ان کو جانچا گیا ہے تو انہوں نے ان کو تعاون کا یقین دلایاہے ان سیاسی کھڑپینچوں نے محفلوں میں راستہ ہموار کرنے کے لیے بات چیت شروع کر کے عوام کے خیالات جانچنا شروع کر دیے ہیں اور ایک طرف بحریہ میں این اے باون کی تیس ہزار سے زائد ووٹ موجود ہے اور اس کا بھی کھوکھر برادارن کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے اگر کھوکھر برادران الیکشن لڑتے ہیں تو کیا وہ جیت پائیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات کہ موجودہ سیاسی اور مفاداتی پرندوں کا ٹولہ پہلے سے ہی اڑان بھرنے کو تیار ہے کیا وہ چوہدری نثار کے خلاف جا سکتے ہیں تو دوسری طرف ق لیگ کے راجگان برادارن بھی اس وقت موقع کی نزاکت کو بخوبی دیکھئے ہوئے ہیں اور ان کے بھی کھوکھر برادران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور اگر یہ سلسلہ چلتا ہے تو لازما انہوں نے اس حلقہ میں اپنے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے الیکشن کو جیتنے کی کوشش کرنی ہے کیونکہ دھمیال ہاوس آج تک یہاں سے الیکشن جیت نہیں سکا ہے اور چوہدری نثار کے لگائے ہوئے سیاسی زخم ابھی تک بھرے نہیں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اس حلقہ سے چوہدری نثار کو آوٹ کریں یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ ق لیگ تحریک انصاف کے ساتھ اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو پھر کیا پیپلز پارٹی اس حلقہ میں زور آزمائی کر سکے گی بات تحریک انصاف کی آئی تو اس حلقہ میں ایک وقت تحریک انصاف کے تین امیدوار الیکشن کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن چوہدری نثار کا این اے 53کی جانب زیادہ زور نے غلام سرور خان جو ان کے سیاسی حریف ہیں کو اپنے حلقہ تک محدود کر دیا اوران کی این اے باون میں آمد کم ہو کر رہ گئی ہے اس حلقہ میں اب تحریک انصاف کے دو امیدوارکرنل اجمل صابر راجہ اور راجہ ساجد جاوید میدان عمل میں ہیں کرنل اجمل اس سے پہلے ایک الیکشن لڑ چکے اور انہوں نے ووٹوں کی بھی ایک بڑی تعداد لی تھی اس کے برعکس ساجد جاوید کا یہ قومی سطح کا پہلا الیکشن ہے غلام سرور خان نے کلر سیداں میں میڈیا سے بات چیت کہاکہ کسی میری کوشش ہے کہ چوہدری نثار کے خلاف الیکشن لڑوں لیکن اگر پارٹی کسی اور کو ٹکٹ دے دیتی ہے تو کلر سیداں میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی سیاسی مہم کا آغاز کرونگا چوہدری نثار کو اس حلقہ میں شکست دینے کی کوشش میں تحریک انصاف کا ایک پلیٹ فارم پر آنا ضروری ہے آئے روز باڈیز بنانا اور ان کو تحلیل کرنا تحریک انصاف کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے اس حلقہ میں جو لوگ دن رات کام کرہے ہیں ان کی محنت کھوہ کھاتے میں جانے سے روکنے کے لیے تحریک انصاف کو ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کو اپنانا ہو گا اس وقت ن لیگ کے ساتھ ووٹر کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہے لیکن چوہدری نثار علی خان کی موجودہ سیاسی پینتروں نے کارکنوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے ن لیگ کے کارکن اب دوحصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں گوکہ موجودہ ملکی حالات میں چوہدری نثار کا فیصلہ بڑا اہم تھا لیکن کارکنوں کے ایک حصہ کا کہنا ہے کہ ان کو پارٹی قیادت کا ساتھ دینا چاہیے تھا اگر ان کو اپنی مقبولیت کا اتنا ہی گھمنڈہے تو وہ اس حلقہ سے آزاد الیکشن میں حصہ لیکر دیکھیں ان کو آٹے دال کا بھاو معلوم ہو جائے گا موجودہ سیاسی کشمکش نے جہاں ملکی سیاست پر اثر ڈلا وہاں اس نے لامحالہ طور پر چوہدری نثار علی خان کی سیاست کو بھی جھنجوڑا ہے ان کوالیکشن میں جہاں دوسری سیاسی پارٹیاں ٹف ٹاٗم دینے کی کوششوں میں لگئی ہوئی ہیں وہاں ان کو پارٹی کے اندر سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے لیے ان کے قریبی حریف چوہدری تنویر بھی اس میں پیش پیش ہیں اور شنید ہے کہ وہ الیکشنوں میں کچھ کر سکتے سامنے نہ سہی در پردہ سہی یہاں چوہدری نثار علی خان کو اس مرتبہ سیاست بچانے کے انتہائی اہم اقدامات کرنے ہوں گے جہاں انہوں نے پارٹی کے اندر سے گروپ بندی کو ختم کرنا وہاں ان کواپنے رویے میں بھی تبدیلی لانا ہو گی

اپنا تبصرہ بھیجیں