183

چوہدری کی شکت کیلئے قوتیں متحرک ہوگیں

آصف شاہ نمائندہ پنڈی پوسٹ
عام انتخابات آئندہ سال متوقع ہیں اسی تناظر میں ملک میں سیاسی ہلچل کا آغاز ہوچکاہے اور سیاسی پنچھی ابھی سے اڑانیں بھر بھر کر دوسری پارٹیوں کا رخ کر رہے ہیں سب سے زیادہ رخ تحریک انصاف کی جانب دیکھنے میں آرہا ہے ملکی سیاست کی طرح این اے باون میں بھی اندرونی طور پر جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا ایک ہی مرکز ہے کہ کسی طرح چوہدری نثار علی خان کو ہرایا جائے تحریک انصاف تو پیش پیش تھی لیکن گزشتہ ہفتہ پیپلز پارٹی نے بھی اس پر عملی طور پر کام شروع کر دیا ہے پیپلز پارٹی کے لیے ملک بابر اعوان نے اس حلقہ سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تھا اور وہ ہلکی پھلکی اس کی پریکٹس بھی کر رہے تھے لیکن اب شنید ہے کہ اس حلقہ سے کھو کھر برادران میدان سیاست میں آئیں گے اور اس پر مشاورت بھی جاری ہے اندرونی زرائع کا کہنا ہے حاجی نواز کھوکھر خود میدان عمل میں نہیں آئیں گے بلکہ اس کے لیے مصطفے نواز کھوکھر کو سامنے لایا جائے گا اسی حوالہ سے چند ایسے نام جو اس وقت چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑے ہیں ان کو بھی ٹچ کیا گیا ہے اور ان کو جانچا گیا ہے تو انہوں نے ان کو تعاون کا یقین دلایاہے ان سیاسی کھڑپینچوں نے محفلوں میں راستہ ہموار کرنے کے لیے بات چیت شروع کر کے عوام کے خیالات جانچنا شروع کر دیے ہیں اور ایک طرف بحریہ میں این اے باون کی تیس ہزار سے زائد ووٹ موجود ہے اور اس کا بھی کھوکھر برادارن کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی گئی ہے اگر کھوکھر برادران الیکشن لڑتے ہیں تو کیا وہ جیت پائیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن ایک بات کہ موجودہ سیاسی اور مفاداتی پرندوں کا ٹولہ پہلے سے ہی اڑان بھرنے کو تیار ہے کیا وہ چوہدری نثار کے خلاف جا سکتے ہیں تو دوسری طرف ق لیگ کے راجگان برادارن بھی اس وقت موقع کی نزاکت کو بخوبی دیکھئے ہوئے ہیں اور ان کے بھی کھوکھر برادران کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور اگر یہ سلسلہ چلتا ہے تو لازما انہوں نے اس حلقہ میں اپنے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے الیکشن کو جیتنے کی کوشش کرنی ہے کیونکہ دھمیال ہاوس آج تک یہاں سے الیکشن جیت نہیں سکا ہے اور چوہدری نثار کے لگائے ہوئے سیاسی زخم ابھی تک بھرے نہیں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح اس حلقہ سے چوہدری نثار کو آوٹ کریں یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ ق لیگ تحریک انصاف کے ساتھ اگر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے تو پھر کیا پیپلز پارٹی اس حلقہ میں زور آزمائی کر سکے گی بات تحریک انصاف کی آئی تو اس حلقہ میں ایک وقت تحریک انصاف کے تین امیدوار الیکشن کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن چوہدری نثار کا این اے 53کی جانب زیادہ زور نے غلام سرور خان جو ان کے سیاسی حریف ہیں کو اپنے حلقہ تک محدود کر دیا اوران کی این اے باون میں آمد کم ہو کر رہ گئی ہے اس حلقہ میں اب تحریک انصاف کے دو امیدوارکرنل اجمل صابر راجہ اور راجہ ساجد جاوید میدان عمل میں ہیں کرنل اجمل اس سے پہلے ایک الیکشن لڑ چکے اور انہوں نے ووٹوں کی بھی ایک بڑی تعداد لی تھی اس کے برعکس ساجد جاوید کا یہ قومی سطح کا پہلا الیکشن ہے غلام سرور خان نے کلر سیداں میں میڈیا سے بات چیت کہاکہ کسی میری کوشش ہے کہ چوہدری نثار کے خلاف الیکشن لڑوں لیکن اگر پارٹی کسی اور کو ٹکٹ دے دیتی ہے تو کلر سیداں میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی سیاسی مہم کا آغاز کرونگا چوہدری نثار کو اس حلقہ میں شکست دینے کی کوشش میں تحریک انصاف کا ایک پلیٹ فارم پر آنا ضروری ہے آئے روز باڈیز بنانا اور ان کو تحلیل کرنا تحریک انصاف کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے اس حلقہ میں جو لوگ دن رات کام کرہے ہیں ان کی محنت کھوہ کھاتے میں جانے سے روکنے کے لیے تحریک انصاف کو ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کو اپنانا ہو گا اس وقت ن لیگ کے ساتھ ووٹر کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہے لیکن چوہدری نثار علی خان کی موجودہ سیاسی پینتروں نے کارکنوں میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے ن لیگ کے کارکن اب دوحصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں گوکہ موجودہ ملکی حالات میں چوہدری نثار کا فیصلہ بڑا اہم تھا لیکن کارکنوں کے ایک حصہ کا کہنا ہے کہ ان کو پارٹی قیادت کا ساتھ دینا چاہیے تھا اگر ان کو اپنی مقبولیت کا اتنا ہی گھمنڈہے تو وہ اس حلقہ سے آزاد الیکشن میں حصہ لیکر دیکھیں ان کو آٹے دال کا بھاو معلوم ہو جائے گا موجودہ سیاسی کشمکش نے جہاں ملکی سیاست پر اثر ڈلا وہاں اس نے لامحالہ طور پر چوہدری نثار علی خان کی سیاست کو بھی جھنجوڑا ہے ان کوالیکشن میں جہاں دوسری سیاسی پارٹیاں ٹف ٹاٗم دینے کی کوششوں میں لگئی ہوئی ہیں وہاں ان کو پارٹی کے اندر سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اس کے لیے ان کے قریبی حریف چوہدری تنویر بھی اس میں پیش پیش ہیں اور شنید ہے کہ وہ الیکشنوں میں کچھ کر سکتے سامنے نہ سہی در پردہ سہی یہاں چوہدری نثار علی خان کو اس مرتبہ سیاست بچانے کے انتہائی اہم اقدامات کرنے ہوں گے جہاں انہوں نے پارٹی کے اندر سے گروپ بندی کو ختم کرنا وہاں ان کواپنے رویے میں بھی تبدیلی لانا ہو گی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں