بابر اورنگزیب/پاکستان تحریک انصاف کی حکومتی پالیسیوں اور دن بدن کی مہنگائی سے جہاں عوام اور ووٹر ان سے بدظن ہورہا ہے تو وہیں پر رہی سہی کسر حالیہ تنظیم سازی نے پوری کر دی جس سے اس کے اپنے کارکن ان سے ناراض ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ تنظیم سازی میرٹ پر نہیں ہوئی بلکہ سفارشی ٹولے کو آگے لایا گیا ہے اور حقیقی کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا ہے راولپنڈی شہر سمیت دیہات کے علاقوں میں بھی کارکن تنظیم سازی سے مطمئن دکھائی نہیں دے رہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن بظاہر خاموش دکھائی دے رہے ہیں اور پہلے کی طرح کسی بھی سیاسی عمل میں اس طرح سے شامل نہیں ہو رہے اس صورتحال کا فائدہ انکی مخالف سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کو ہو رہا ہے جس نے گذشتہ ہفتے راولپنڈی میں ایک بڑا پاور شو کر کے ثابت بھی کیا ہے کہ مسلم لیگ ن پھر سے راولپنڈی میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے مسلم لیگ ن جسکا شیرازہ 2018 کے الیکشن میں بکھر چکا تھا اور مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی جسکے کئی گروپ بن چکے تھے اور جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی میں مسلم لیگ ن کا قلعہ سمجھا جانے والے راولپنڈی سے 2018 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کوئی بھی سیٹ نہیں جیت سکی الیکشن میں بدترین ناکامی کے بعد مسلم لیگ ن کا ووٹر بھی بکھر چکا تھا جسکو دوبارہ سمیٹنے اور مسلم لیگ ن کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت تھی جسکی اہمیت کو مسلم لیگ ن کی اعلی لیڈر شپ نے بھی محسوس کیا اور انھوں نے راولپنڈی میں دو شخصیات جن میں قمر اسلام راجہ اور محمد حنیف عباسی انکو پنجاب کی سطح پر اہم ذمہ داری دی اور مسلم لیگ ن پنجاب کا نائب صدر منتخب کیا جس میں محمد حنیف عباسی تو کوئی اہم کردار ادا کرتے نظر نہیں آئے جو تاحال خاموش ہی دکھائی دے رہے ہیں کسی سیاسی اجتماع میں بھی نظر نہیں آتے مستقبل قریب میں انکی کیا حکمت عملی ہوگی اسکا اندازہ آنے والے وقت میں ہی لگایا جاسکتا ہے مگر دوسری شخصیت قمر اسلام راجہ ہے جنھوں نے پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے اور خاص طور پر شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری کے بعد ان کے حلقے کلر سیداں اور این اے 59 میں متحرک نظر آئے اور کارکنوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور تھوڑے ہی وقت میں جسکا نتیجہ شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی رہائی کے وقت نظر آیا جب عوام کی ایک بڑی تعداد نے انکا بھر پور استقبال کیاشاہد خاقان عباسی کی رہائی کے بعد انھوں نے قمر اسلام راجہ کے ساتھ مل کر بڑی محنت کی اور راولپنڈی کے سابق ٹکٹ ہولڈر کو اکٹھا کیا اور دوبارہ سے پارٹی کو منظم کرنے کی ٹھان لی راولپنڈی کینٹ میں ملک ابرار اور شہر میں سردار نسیم سمیت دیگر ٹکٹ ہولڈر نے پارٹی کو اکھٹا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اصل مسئلہ دیہات کا تھا جہاں پر مسلم لیگ ن کا ووٹر 2018 کے الیکشن میں چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑا تھا انکو دوبارہ سے مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑا کرنا اور سابقہ حق تلافیوں کا ازالہ کرنا تھا جن کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار قمر اسلام راجہ نے کیا جنھوں نے حلقہ این اے 59 پی پی 10 جسکا کچھ علاقے مری کے حلقے سے بھی لگتا ہے جن میں کلرسیداں اور پنڈ جھاٹلہ وغیرہ شامل ہے جبکہ پی پی 13 جسکا کچھ حلقہ راولپنڈی شہری حلقے سے لگتا ہے اسکے علاوہ حلقہ پی پی 12 بھی شامل ہے میں اپنا اہم کردار ادا کیا انھوں نے مسلم لیگ ن کے ورکر کو دوبارہ سے زندہ کیا اور جنھوں نے مسلم لیگ ن سے ناطہ بھی کسی وجہ سے توڑ دیا تھا ان سے بھی ملاقات کر کے دوبارہ سے متحرک کیا ہر چھوٹے سے چھوٹے کارکن سے ذاتی طور پر رابطہ بحال کیا اور اسکو اعتماد دلایا کہ ماضی کی حق تلفی کا ازالہ کیا جائے گا اس کے بعد انھوں نے حلقہ این اے 59 سوشل میڈیا ٹیم اور یوتھ ونگ
کی یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی کی اور حقیقی معنوں میں پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والے کارکنوں اور نوجوانوں کو آگے لایا انھوں نے حلقہ پی پی 12 سے پارٹی کے لیے قربانیاں دینے والے اور مخلص شخص فیصل قیوم ملک کو سامنے لایا اور انکو اس حلقہ کی ذمہ داری سونپی اور انھوں نے بھی حلقہ پی پی 12 جن میں گرجا روڈ،چک جلال دین، موہری غزن سمیت اڈیالہ روڈ کا علاقہ شامل ہے میں بہت ورک کیا اور پارٹی کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کیا یہی وجہ تھی کہ اس محنت کا نتیجہ حالیہ مسلم لیگ ن کا راولپنڈی میں ورکر کنونشن ہونا ہے جس میں کوئی شک نہیں راولپنڈی شہر سمیت کینٹ اور ٹیکسلا، مری سے کارکن آئے مگر سب سے زیادہ تعداد کارکنوں کی قمر اسلام راجہ کی سربراہی میں حلقہ این اے 59 سے تھی جس میں حلقہ پی پی 12 اور 10 سمیت پی پی 13 بھی شامل تھی قمر اسلام راجہ کا یوں متحرک ہونا کارکنوں کو عزت و مقام دینا اور پارٹی کو مضبوط کرنا جہاں مسلم لیگ ن کے ورکروں کے لیے خوشی کی لہر اور نیک شگون ہے تو وہی پر این اے 59 سمیت راولپنڈی کے دیہی حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اگر پاکستان تحریک انصاف نے حالیہ تنظیم سازی والی روش قائم رکھی اور کارکن اسی طرح سے بدظن ہوتے رہے تو آنے والے الیکشن میں انکو نتائج بھگتنا پڑے گے۔
172