تحصیل کلر سیداں میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہو رہے ہیں ہر اگلے ماہ کو کسی نہ کسی کام کا اعلان ہو رہا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی منصوبے میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے ٹھیکیدار صرف چند افراد کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں اور ملی بھگت کر کے
ناقص تعمیر شدہ منصوبوں کو پاس بھی کروا لیتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں غیر معیاری مٹیریل سے تعمیر ہونے والے منصوبے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتے ہیں اور منصوبے کے لیے گرانٹ فراہم کرنے والے کی بد نامی کا باعث بننا شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح دوسال قبل دو کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی باغ بوٹہ تا نوتھیہ روڈ جس کی لمبائی 5 کلو میٹر ہے ناقص مٹیریل کے استعمال سے اس وقت کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہے جب یہ سڑک بنائی جارہی تھی تو مقامی آبادیوں کے متعدد افراد نے مختلف قسم کے اعتراضات اٹھائے مگر کسی کی بھی نہ سنی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مختصر عرصہ میں سڑک کی حالت خراب ہو گئی اور اس روڈ کی تعمیر کے دوران ایک بہت بڑی خامی پیدا کر دی گئی ہے ایک کلومیٹر جو کہ باغ بوٹا پل سے شروع ہو کر باغ بوٹا گاؤں سے گزر کر ختم ہو جاتی ہے کو کچا ہی چھوڑ دیا گیا ہے اور کچی رہ جانے والی سڑک کی اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ اس پر سے گاڑیوں کا گزرنا بہت مشکل ہو چکا ہے اور آئے روز گاڑیوں کے حصے ٹوٹ رہے ہیں جس وجہ سے ٹرانسپورٹر حضرات سخت مالی مشکلات سے دو چار ہو رہے ہیں سڑک جو بظاہر مکمل کر لی گئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا ایک بہت اہم حصہ نامکمل چھوڑ دینا بھی کئی سوالات کرتا ہے اب حالت یہ بنتی جارہی ہے کہ بہت سے سوزوکی مالکان یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ گاڑیوں کی تباہی کرنے سے بند کر دینا ہی بہتر ہے اس کے علاوہ بقایا روڈ پر بھی جگہ جگہ کھڈے پڑ چکے ہیں اور ان میں پانی کھڑا ہوجانے سے مزید کئی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں کروڑوں روپے اس طرح کے منصبوں میں لگا دینا اور پھر ان پر چیک اینڈ بیلنس نہ رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے اس روڈ کی تعمیر میں نہ تو معیار کا خیال رکھا گیا ہے اور نہ ہی اچھے برے مٹیریل پر توجہ دی گئی اور محض چند سالوں میں روڈ کی صورت حال بگڑ گئی ہے دو کروڑ کی خطیر رقم کی لاگت سے تعمیر ہونے والی سڑک ناقص پالیسیوں کی وجہ سے آج آثار قدیمہ کا نمونہ بن چکی ہے اس کے علاوہ بھی جو سڑکیں تعمیر ہو رہی ہیں ان کا حال بھی ایسا ہے جن میں سر فہرست کلر تا پھلینہ روڈ اور چو ک پنڈوڑی تا بھاٹہ روڈ ان دونوں سڑکوں کی تعمیر میں بھی بے پناہ کرپشن ہوئی ہے مذکورہ سڑکوں کے مٹیریل میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ وہ پانی یا تیز دھوپ کو برداشت کر سکے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اتنے زور و شوروں سے تعمیر ہونے والے منصوبے کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں اور اس طرح کی کھلی کرپشن سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں بھی پوچھنے والا موجود نہیں ہے اور یہاں مزید چوک پنڈوڑی تا گکھڑ ادمال کارپٹ روڈ کی تعمیر علاقہ کی ترقی میں بہت اہم کردار اد ا کرے گی کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ اس روڈ کی تعمیر شروع د ہو چکی ہے مگر اس میں بھی ابھی سے خامیاں رکھی جا رہی ہیں اس روڈ کی تعمیر میں پہلا مرحلہ گیڑاپتھر وغیرہ ڈالنا ہوتا ہے لیکن یہاں پر صرف مٹی سے کام چلایا جارہا ہے صرف مٹی سے بھرائی کرنے سے سڑک کی بنیادیں کمزور ہو جائیں گی اس پر اگر اچھے سے اچھا بھی مٹیریل ڈال دیا جائے تو پھر بھی اس کی مضبوطی قائم نہیں رہے گی کیوں کہ مٹی سے اس کی بنیاد ہی کمزور ہو جائے گی اگر اس کی بنیاد جتنی مضبوط بنائی جائے گی سڑک بھی اتنی ہی اچھی تیار ہو گی جو دیر پا قائم رہے گی بصورت دیگر اس کی حالت بھی پھلینہ ،بھاٹہ اور نوتھیہ روڈ کی طرح ہو جائے گی سرکاری اداروں کا حال یہ ہوچکا ہے کہ اول تو کوئی شخص کسی بھی ادارے کے کام کے خلاف شکایت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا ہے اور اگر کوئی ہمت کر کے تیار بھی ہو جاتا ہے تو ٹرخانے کے لیے کوئی فرضی انکوئری لگا دی جاتی ہے جس کا مطلب کرپٹ افراد کو کلیئر کرنا ہوتا ہے اور چند دنوں کے بعد معاملات جوں کے توں ہو جاتے ہیں کسی بھی سڑک کو سامنے رکھ لیا جائے تو ہر روڈ کی تعمیر میں نقائص نظر آئیں گے اسی طرح باغ بوٹا نوتھیہ روڈ بھی نقائص سے بھری پڑی ہے اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ محض منصوبوں کا اعلان ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان پر خصوصی توجہ دینا بھی انتہائی ضروری ہے ناقص مٹیریل کے استعمال پر سرکاری ادارے حرکت میں آئیں اس علاقہ میں صرف ایک سڑک ایسی ہے جس کو تمام خامیوں سے پاک کہا جا سکتا ہے وہ ہے روات تا کلر سیداں روڈ اور اس کی تعمیر کو معیاری بھی کہا جا سکتا ہے جب اس روڈ پر سفر کیا جائے تو یہ روڈ آواز دیتی ہے مجھ پر معیاری کام ہو ا ہے اور میں باغ بوٹا تا نوتھیہ چوک پنڈوری تا بھاٹہ اور کلر سیداں سے پھلینہ روڈ سے بالکل مختلف ہوں اسی طرح جن جگہوں پر گلیاں بن رہی ہیں وہاں پر بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے اکثر گلیوں میں دیکھا گیا ہے کہ وہاں پر نالیاں نہیں بنائی جارہی ہیں جس کی وجہ سے پانی پوری گلی میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس سے گلیاں بہت جلدی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں جب تک سڑکوں اور گلیات کی تعمیر کے دوران ناقص مٹیریل کے استعمال کی روک تھام نہ کی جائے گی اس وقت تک تمام مسائل حل ہونے کے باجود حل نہیں ہوں گے جہاں کہیں بھی ناقص مٹیریل کے استعمال کی صورتحال نظر آئے وہاں پر ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لا کر عوام کے دکھوں کا کچھ تھوڑا سا مداوا ضرور کیا جا سکتا ہے اور عوام کو بھی چاہیے کہ جہاں اس قسم کی صورتحال نظر آئے تو وہاں پر کسی بھی نزدیکی متعلقہ ادارے سے رجوع کریں ۔{jcomments on}