چوہدری جاوید کوثر کے اقتدار کے دو سال

عبدالستارنیازی/ قارئین کرام!پاکستان کے سیاستدانوں کے ماضی اور حال پر نظر دوڑائیں تو آپ کو قبضہ مافیا ،لینڈ مافیا،تھانہ کچہری کی سیاست، گلی نالی کی سیاست، ووٹ خریدنے کی سیاست اور ٹخنوں بلکہ گردن تک کرپشن میں دھنسے ہوئے لوگ نظر آئیں گے اور یہ سب عوام کے اتنے مخلص ہیں جتنے سانپ اپنے دودھ پلانے والے سے مخلص ہوتاہے ، کسی سیاستدان نے آج سے 20/25 سال قبل کہا تھا کہ یہ نظام غریب کو تحفظ نہیں دے سکتا، یہ نظام کرپٹ ہے اور اس نظام کے تحت کبھی تبدیلی نہیں آسکتی، پھر تبدیلی کے دعویداروں نے کمربستہ ہوکر کہا کہ ہم اس شخص کی بات کو رد کرتے ہیں اور ہم تبدیلی لا کر دکھائیں گے پھر تبدیلی والوں کی ڈیل ہوگئی اور تبدیلی والوں کو حکومت پلیٹ میں رکھ کر دے دی گئی، دو سال سے تبدیلی حکومت پاکستان پر مسلط ہے اور عوام کا معیار زندگی دن بدن گرتا چلا جا رہاہے، سونے کی قیمت ہو یا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اُتار چڑھاﺅ، چینی مافیا کی حکمرانی ہویا آٹا مافیا کی، کرونا وائرس کی آڑ میں فنڈنگ کھانے والا مافیا ہو یا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بڑی بڑی کرسیوں پر نوازے جانے والوں کی لمبی لائن ، ہر جگہ عوام کو نیچا دکھا کر یہ ثابت کیا جارہاہے کہ تم کیڑے مکوڑے ہو تمہاری اوقات یہی ہے تم صرف لائن میں لگ کر ووٹ دے کر پانچ سال ذلیل ہونے کے لئے پیدا ہوئے ہو، حلقہ این اے 58 اور بالخصوص حلقہ PP8 میں تبدیلی کی بات کی جائے تو وہ سر چڑھ کر بول رہی ہے، ہر ادارے میں کرپشن پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے ، پہلے کرپشن کیساتھ لوگوں کے کام ہو جاتے تھے اب کرپشن کیساتھ لوگوں کو ذلیل بھی کیا جاتاہے، سیاست وہی سابقہ چل رہی ہے صرف چہرے بدلے ہیں، ممبر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کی تو حکومت ہی نہیں اس لیے ان کے پاس اچھا بہانہ ہے اور وہ عوام کو الیکشن کے بعد سے نظر ہی نہیں آئے اور اگر نظر آتے ہیں تو ٹی وی سکرین پر قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ، چونکہ وہ سابق وزیراعظم ہیں اس لیے حلقے کے مسائل ان کیلئے اب اتنی اہمیت نہیں رکھتے وہ قومی ایشوز پر بات کرنے کو اپنا معیار سمجھتے ہیں، ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر چونکہ بقول کھلاڑیوں کے عوامی ایم پی اے ہیں اس لئے وہ زیادہ تر عوام کی فاتحہ ، ولیمے ، جنازے ، افتتاح گلی سڑک دوکان و مکان ، دعوت طعام و چائے میں دیکھے جاتے ہیں اور فوٹو سیشن کی بدولت وہ نظر بھی آتے ہیں مگر بے چارے اداروں کے سامنے بے بس ہیں، پہلی بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ، زیادہ تجربہ نہیں کہ اداروں سے کام کیسے کرائے جاتے ہیں اور کرپشن کیسے ختم کی جاتی ہے تو ان کے کارندے و دست راست جو سالہا سال سے مختلف پارٹیوں میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے وہ ایم پی اے کی جگہ سارے امور سرانجام دیتے ہیں اور ایم پی اے موصوف خوش ہوتے رہتے ہیں کہ سب اچھا ہے اور گڈ گورننس کی رپورٹ پہنچتی ہے، گوجرخان میں عوام کا معیار زندگی بلند کیا ہونا ہے یہاں عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں منتخب نمائندے ہی رکاوٹ بن چکے ہیں، ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر نے الیکشن مہم کے دوران، الیکشن مہم سے پہلے اور منتخب ہونے کے بعد اسمبلی کے فلور پر جو تقاریر کیں وہ ریکارڈ پر ہیں،اسمبلی میں ان کی ایک ہی تقریر جو مجھے دستیاب ہو سکی وہ میں نے سنی جس میں موصوف کافی کنفیوز نظر آئے مگر باتیں بہت کام کی کیں ، چونکہ اسمبلی کا فلور صرف باتوں کیلئے ہوتاہے اس لئے وہاں باتیں ہی اچھی لگتی ہیں، جنہوں نے کام کرانے ہوتے ہیں وہ چیمبر اور دفاتر میں ملاقاتیں کرکے ”کوہسار یونیورسٹی “منظور کراکر نوٹیفکیشن تک جاری کرا لیتے ہیں،الیکشن مہم کے دوران ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری جاوید کوثر نے عوام سے تین مرکزی وعدے کئے تھے جن میں ٹراما سنٹرو سول ہسپتال کی اپ گریڈیشن ،پوٹھوہار یونیورسٹی، ضلع گوجرخان شامل ہیں، ایم پی اے موصوف الیکشن کے بعد یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ گوجرخان تو پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بیشمار بڑی تحصیلات ہیں وہ ضلع نہیں بنیں تو گوجرخان کیسے ضلع بن سکتاہے بہرحال ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے، جبکہ الیکشن اور الیکشن سے قبل ن لیگ کی حکومت میں کارنر میٹنگز اور جلسوں میں یہی لوگ عوام کو لالی پاپ دیتے ہوئے دکھائی دیتے تھے کہ دیکھیں ن لیگ نے وعدے کر کے پورے نہیں کئے اور پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل کو ضلع نہیں بنوا سکے،سول ہسپتال گوجرخان کی اپ گریڈیشن کیا کرانی ، دوسال میں ہسپتال میں صرف دو ڈاکٹرز کی تعیناتی کرا سکے اور کسی قابل شخص کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ دیکھنا انہیں اور بالخصوص ان کے کارندوں کو گوارا ہی نہیں، پوٹھوہار یونیورسٹی کا وعدہ بھی ان کو یاد ہے مگر وہاں چاردیواری کی تعمیر کرا کے شاید انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا اور بقول ان کے قبضہ مافیا سے انہوں نے جگہ کو بچا لیا ، اس سے قبل کئی سالوں سے وہی جگہ ویران پڑی تھی اس وقت تو بڑے بڑے قبضہ مافیا میں سے کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ وہاں پر قبضہ کر سکے، مگر چونکہ عوام کا پیسہ انھے واہ لگانا ہے تو چار کروڑ روپے کی رقم سے وہاں چاردیواری تعمیر کر دی گئی، گوجرخان کے چلڈرن پارک میں 40لاکھ روپے کی لاگت سے ایک لائبریری تعمیر کی گئی ہے اور مبینہ طور پر اس منصوبے میں انھے واہ کرپشن کی گئی ہے ، گوجرخان میں کرپشن کی عجیب و غریب داستانیں رقم ہورہی ہیں لیکن چونکہ سب اچھا کی رپورٹ دینی ہے تو کوئی بات نہیں کررہا یا پھر کسی میں ہمت نہیں ، منتخب نمائندوں کی مرضی و منشاءسے ڈاکٹر عمر فاروق کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات کیا گیا تھا جس پر بے شمار کرپشن کے الزامات ہیں اور چند ماہ قبل رنگے ہاتھوں انٹی کرپشن نے اسے گرفتار بھی کیا، ان کی زیرنگرانی بلدیہ گوجرخان میں لاکھوں کی کرپشن ہوتی آرہی ہے، ان کی زیرنگرانی محکمہ مال میں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی کرپشن ہورہی ہے الغرض کوئی ایسا ادارہ نہیں جو ان کی زیرنگرانی کرپشن سے پاک ہواہو،اب ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر اور ان کے حواری یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے اوپر کوئی کرپشن کا کیس نہیں ہے اور ہم نے ایک روپیہ بھی نہیں کھایا، اصول یہ ہے کہ چور کی مدد کرنے والا بھی چور ہوتاہے اور قاتل کی مدد کرنے والا قاتل ہوتاہے اسی طرح جس شخص کے پاس اقتدار ہوتاہے وہ اس کا جوابدہ ہے اس کے زیراثر چلنے والے اداروں میں جتنی کرپشن ہورہی ہے اس کے بارے میں اس سے جواب طلب کیا جائے گا ، بہرحال امید پہ دنیا قائم ہے دو سال میں تو کچھ نہیں ہوا، مزید آنے والے وقت میں بھی دیکھ لیتے ہیں جو دو سال میں کچھ نہیں کر پائے وہ آئندہ کیا کر لیں گے۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں