انور اشرفی
برصغیر میں جب سینما اور فلم کا آغاز ہواتو بمبئی اور کلکتہ میں فلم سٹوڈیو تعمیر ہوئے یہ دونوں شہر فلمی مرکز بنے بعدمیں لاہور میں پچولی سٹوڈیوتعمیر ہوا تو لاہور بھی اس فن میں شامل ہوگیا اس زمانے میں اکثریت ان پڑھ لوگوں کی تھی اس لئے زیادہ ترلوگ سینما کو بائسکوپ کہا کرتے سینما اور فلم کی مقبولیت میں روز بہ روز اضافہ ہونے لگا تو نوجوانوں میں اداکاربنے کا شوق زورپکڑنے لگا اور بہت تیزی سے لوگ فلمی مراکز خاص طور پر بمبئی کا رخ کرنے لگے کہ بمبئی کی فلموں نے کامیابی حاصل کر رہی تھی پوٹھوار کے ہی بہت سے لوگ اس شوق کو پورا کرنے کے لئے بمبئی پہنچے لیکن ان میں سے کامیابی صرف براج ساہستی شاکر ،جگدیش سیٹھی علاوہ الدین ظہورراجہ اور اداکارہ پشپاپنڈی والی کو حاصل ہوئی فلم کے پوسٹر اور سینما کے بورڈ پر اداکارہ پشپاکے ساتھ پنڈی والی ضرور تحریر کیا جاتا پاکستان پہنچنے کے بعد لاہور اور کراچی فلمی دنیا کے مرکزٹہرے تو پوٹھوار سے اداکاری کے شوق میں سب سے پہلے لال کرتی راولپنڈی کے مشہور گھرانے سے تعلق رکھنے والے ارشد نامی نوجوان نے لاہور کا رخ کیا اور فلمساز وہدایت کار عطااللہ ثمی نے اسے اپنی فلم نوکر میں شاد کے نام سے متعارف کروایا جو بعد میں صرف شاد کے نام سے پکارا جانے لگا فلم نوکر پورے ملک میں کامیابی کے ساتھ کام کیا لیکن ان فلموں کی ناکامی اور فلمی دنیا کے اردگرد حالات سے دل بردستہ ہوکر فلمی دنیا سے کنارہ کشی ہوگیا اسی دوران راولپنڈی چھاؤنی سے ایک لڑکی اداکاری کے شوق میں لاہور پہنچی اور نسرین کے نام گمنام سے شہرت پائی بے لبہ باتیں سارخاں ‘دیوانہ، گلفام ‘شکریہ‘ جمیلہ نامی فلموں میں کام کیا لیکن ناکام رہی فلم ساز ہدایت کار انورکمال پاشا نے اپنی فلم گھرجوائی میں اداکار بہار کے ساتھ ایک نئے ہیرو کو سلطان کے نام سے متعارف کرایا سلطان کا تعلق بھی راولپنڈی صدر سے تھا گھرجوائی کی ناکامی کے بعد اداکارسلطان نے وطن کالا پانی ،نتیجہ ،مہندی والے ہاتھ ،گلشن ،بے خبر ،تیراانداز ،پیغام میں کام کیا لیکن کامیاب نہ ہوان کے علاوہ پوٹھوار کے تین فن کار غلام الدین خلیل قیصر اور سلطان راہی کے بارے میں ذکر بعد میں ہوگا۔پاکستان کے قیام سے پہلے راولپنڈی میں ریڈیوسٹیشن قائم تھا اس زمانے میں عوام دو شوق رکھتے تھے ریڈیوسنا اور فلم دیکھنا کسی کسی گھر میں ریڈیوسیٹ اورگھریلو فون ہوتا تھا جب کہ ریڈیو سیٹ اور ریکارڈنگ بھی ہوٹل میں ہوتی اور لوگ اپنے شوق کی تسکین کے لئے ان ہوٹلوں کا رخ کرتے اس زمانے میں ڈبلیو،زیٹ ایم ،نوردادا ، محفوظ کھوکر ریڈیو کے ممتاز نام تھے جبکہ ریڈیو کے سنگرز میں عنایت حضروی اور شاہدہ پردین پنڈی والی کو پسند کیا جاتا ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے ان دنوں ہر جمعتہ المبارک کو دن بارہ بجے سے ساڑھے بارہ بجے تک صرف حمدو نعت اور قوالیاں نشر کی جاتیں اور اتوار کے دن بارہ بجے سے ایک بجے تک فرمائشی فلمی نغموں کو فرمائش کرنے والے سا معین کے ناموں کے ساتھ پیش کیا جاتا جبکہ ہفتہ میں دو یاشاید تین بار پوٹھو ہاری واہ پوٹھواری زبان میں کسان بھائیوں کے لئے جہمورنی واز کے نام سے پیش کیا جو عوام میں بے حد مقبولیت حاصل کرتا رہا اس کے دو کردار’’ دوسا اور راجہ صاحب ‘‘اس پروگرام کا خاص مقصد رہے ’’دوسا‘‘کا کردار محمد صدیق اداکرتا جو بعد میں صدیق دوسا کے نام سے اور علی اصغر سید راجہ صاحب کے نام سے مشہور ہوئے علی اصغر سید کا بیٹا حیدر علی بھی اپنے باپ کی آواز میں آج بھی اس پروگرام کو کررہا ہے ۔اور جب صدر ایوب کے دورے حکومت میں راولپنڈی ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو بہت بعد اسلام آباد کے قیام پر اسے اسلام آباد ،راولپنڈی سینڑ کا نام دیا گیا اس زمانے میں اس خطہ کے بہت سے فن کار ٹی وی کا رخ کرنے لگے گلوکار طفیل نیازی اور ان کے بھائی قربان نیازی نے اس سینٹر کے پہلے موسیقی کے پروگرام میں پہلی بار لائیو پروگرام پیش کیا اور ٹی وی سینٹر کے پہلی گلوکار ہونے کا اعزاز حاصل کیا اداکاری کے میدان میں ساحرہ انصاری ،راحت کاظمی ،بدر خلیل ،کنول نصیر ،نثار قادری ،غزالہ بٹ،شجاعت ہاشمی ،جان ریمبو ،نے نمایاں کامیابی حاصل کر لی ۔ساحرہ انصاری اور راحت کاظمی بعد رشتہء ازدواج میں منسلک ہوئے اور ساحرہ کاظمی کراچی سینٹر کی پروڈیوسر بن گئی راحت کاظمی نے فلمی دنیا کا رخ کیا ان فلموں کی ناکامی کے بعد ٹی وی تک محدود ہو گئے ۔اسی طرح شجاعت ہاشمی اور جان ریمبو نے بھی فلموں میں کام کیا ۔لیکن شجاعت ہاشمی کوئی خاص کامیابی نہ حاصل کر سکا حالانکہ انہوں نے کافی فلموں میں کام کیا تھا اور جان ریمبوں بھی فلموں میں خاص کامیابی نہ حاصل کر سکا لیکن اسی دور کی اداکارہ سا حبہ سے شادی کرلی حالانکہ صاحبہ کی والدہ اداکارہ نشو اس شادی سے خوش نہ تھی
141