پاک و بھارت مسئلہ کشمیر کا پرامن حل نکالیں/محمد حسین

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی دونوں ممالک کے لئے تباہ کن خطرات کاباعث بن سکتی ہے ذرا سی غلطی کے نتیجہ میں ایک انتہائی خطرناک جنگ چھڑ سکتی ہے جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے لاکھوں جوان ،بوڑھے ،بچے اور خواتین چند لمحوں میں لقمہ

اجل بن سکتے ہیں اور لاکھوں پر مشتمل اپاہج اور معزور ہونے کی وجہ سے زندگی بوجھ بن جائے گی تابکاری کے مضر اثرات کی وجہ سے موت سے زندہ بچ جانے والی آئیندہ نسلوں میں بھی طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوتی رہیں گی اس جنگ میں جیت کسی کی نہیں ہو گی سب ہارنے والے ہوں گے صرف پاگل اور جنونی ہی یہ جنگ چھیڑنے میں پہل کر سکتے ہیں یہ بات درست ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کا ایٹمی قوت سے لیس ہونا جنگ روکنے کا ایک سبب ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں صرف بھارت اور پاکستان بلکہ بڑی طاقتوں سمیت پوری دنیا کو احساس ہے

اور کوئی بھی اس بڑے انسانی المیہ کے لئے بقائمی ہوش و حواس تیار نہیں ہے لیکن بھارت اور پاکستان کے درمیان جب تک کشیدگی قائم ہے اور دونوں ممالک جب تک دل سے ایک دوسرے کو تسلیم کر کے عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں کے مطابق بقائے باہمی کے لئے تیار نہیں ہوتے اس وقت تک دونوں ایٹمی قوتوں پر خوفناک اور تباہ کن ایٹمی جنگ کے بادل چھائے رہیں گے دونوں ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت اور پاکستان کی دوستی کے لئے مشترکہ بنیادوں کی تلاش میں رہتے ہیں اس میں شک نہیں ہے کہ امن اور دوستی دونوں ممالک کے عوام تعلیم اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں دونوں ممالک میں بے روزگاری ،مہنگائی اور کرپشن کا دور دورہ ہے دونوں ممالک فرقہ وارانہ اور لسانی تعصبات کا شکار ہیں ساور دونوں ممالک ایک دوسرے کے درپے آزاد ہونے کے سبب ایک دوسرے کے لئے مشکلات میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں

اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک ارب لوگوں کا ملک ہونے کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اپنے حجم کی بناء پر اور صارفین کی بڑی منڈی ہونے کے سبب سے عالمی طاقتوں کے لئے ممکن نہیں کہ پاکستان کو بھارت پر ترجیح دیں دوسری طرف پاکستان بھی سمجھتا ہے

کہ پاکستان کے ساتھ مسائل کے عادلانہ حل کے بغیر بھارت کبھی بھی بڑی طاقت نہیں بن سکتا وسط ایشیا ء اور ایران کے توانائی کے وسائل سے استفادہ کرنے کے لئے اور وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے بھارت کے پاس اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل حل کرے بھارت اور پاکستان کے درمیان بہتر ہمسائیگی کے تعلقات قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے بھارت کے سابقہ حکمرانوں نے یہ غلطی کی ہے کہ انہوں نے اپنی طاقت اور بڑائی کے زعم میں اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے اور بھارت کے دستور میں اسے بھارت ک حصہ بنا کر خود اپنے لئے ایک ایسا شکنجہ بنا لیا جس کی جکڑ میں اب وہ اور اہل کشمیر دوونوں محصور ہیں اپنی قوم اور پوری دنیا کو بھارت نے مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کشمیر مستقل طور پر بھارت کا حصہ ہے

اور کشمیر اسمبلی کے انتخابات کروا کر اور کشمیر سے بھارت کی پارلیمنٹ کیلئے ممبران کا چناؤ کر کے بھارت کشمیریوں سے استصواب کرانے کی ضرورت پوری کر چکا ہے اگرچہ قانونی طور پر اقوام متحدہ نے بھارت کا یہ دعویٰ قبول نہیں کیا لیکن شملہ معاہدے کی اپنی خود ساختہ تعبیر کے ذریعے بھارت دنیا بھر میں یہ پرچار کرنے میں مصروف رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اگر کوئی ہے بھی تو وہ ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور وہ مقبوضہ کشمیر میں جو بھی مظالم کرے اس پر دنیا میں کسی کو بھی اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے پاکستان کو بھارت سے تو مسلسل خطرہ رہا ہے موجودہ حالات میں اور زیادہ بڑھ گیا ہے موجودہ عالمی تناظر میں بھارت کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے ساتھ باہمی مفاہمت پورے خطے کے مفاد میں ہے اور اس سے بھارت ہی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا دوسری جانب پاکستان میں بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو کسی طرح بھی بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور بھارت کے ساتھ دشمنی میں پاکستان کی بقاء اور سالمیت کے لئے لازمی سمجھتے ہیں حالانکہ مسئلہ کشمیر کا کوئی منصفانہ حل نکل آئے تو بھارت کے ساتھ دوسرے مسائل کا حل آسانی سے نکل سکتا ہے

برصغیر کے مسلمانوں نے آزادی کی تحریک اور خود پاکستان کی تحریک مل جل کر چلائی تھی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ رابطہ کے لئے بھارت کے ساتھ دشمنی کی بجائے دوستی کی فضا زیادہ مستفید ہو سکتی ہے پاکستان کی عوام کی بھارت مخالفت کی بڑی وجہ کشمیر کے بارے میں بھارت کا ظالمانہ اور بے لچک رویہ ہے اگر بھارت یہ تسلیم کر لے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے بلکہ متنازعہ علاقہ ہے تو تنازعہ کے حل کے لئے مختلف فارمولوں پر غور کیا جا سکتا ہے جو اقوام متحدہ کی اصل قراردادوں کی روح ہے اور جس کی بنیاد یہ عالمگیر متفق علیہ اصول ہے کہ لوگوں کی سیاسی قسمت کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے ذرا سوچئے اور غور کیجئے کہ وادی کشمیر کے مسلمان کسی صورت میں بھی بھارت کا حصہ بن کر نہیں رہنا چاہتے اور پوری وادی خالصتا مسلمانوں کا علاقہ ہے یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کیا واقع بھارت اس مسئلے کا کوئی قابل قبول حل نکالنے کے لئے تیار ہو گا ؟لیکن چونکہ مسئلے کا حل دونوں ممالک کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے

اس لئے دونوں ممالک میں جو لوگ اس کا حل نکالنے میں دل چسپی رکھتے ہیں یا کچھ اثرو رسوخ رکھتے ہیں انہیں فوری طور پر آگے پڑھ کر پورے علاقے کو جنگ کے شعلوں میں دھکیلنے کی بجائے دونوں ممالک کے عوام کے سروں پر منڈلاتے ہوئے خطرات کے خوف کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں صلح پر آمادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے مسئلہ کشمیر کے حل کی ہر کوشش کشمیری عوام کی مرضی اور حق رائے دیہی سے ہی ممکن ہے دونوں ممالک کی حکومتوں کا فرض ہے کہ کوئی باعزت رستہ نکالنے کی کوشش کریں (محمد حسین )

اپنا تبصرہ بھیجیں