ٹوارزم ہائی وے‘ خونی شاہراہ بن گئی


کلرسیداں تحصیل کا علاقہ اپنی قدرتی خوبصورتی، سرسبز پہاڑوں اور سیاحتی مقامات کے باعث نہ صرف مقامی افراد بلکہ اطراف کے اضلاع کے لوگوں کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ خصوصاً چوک پنڈوڑی ٹورازم ہائی وے کو اس خطے کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے جو سیاحوں، مقامی ٹریفک اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکزی راستہ ہے۔

تاہم بدقسمتی سے یہی سڑک آج موت کا راستہ بنتی جا رہی ہے، جہاں روزانہ تیز رفتاری کے باعث حادثات نے کئی خاندانوں کے چراغ گل کر دیے ہیں۔یہ سڑک بظاہر ایک عام ہائی وے ہے، مگر اس پر ٹریفک کا دباؤدن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر چھٹیوں کے دنوں اور سیاحتی سیزن میں یہاں گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف آباد علاقے، تعلیمی ادارے، بازار اور دیہی آبادی ہونے کے باوجود تیز رفتار گاڑیوں کا بے لگام گزر شہریوں کے لیے مستقل خوف کی علامت بن چکا ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران اس سڑک پر متعدد حادثات رونما ہو چکے ہیں جن میں موٹر سائیکل سوار، پیدل چلنے والے، اور کئی خاندان نشانہ بنے۔ مقامی افراد کے مطابق اکثر حادثات کی بنیادی وجہ اوور اسپیڈنگ ہے۔ نوجوان ڈرائیور، غیر تربیت یافتہ موٹر سائیکل سوار، اور لمبا سٹریچ دیکھ کر رفتار بڑھانے والے افراد نہ صرف اپنی جان بلکہ دوسروں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس اہم شاہراہ پر نہ تو کوئی اسپیڈ چیکنگ کیمرہ نصب ہے

اور نہ ہی مناسب مقامات پر اسپیڈ بریکرز لگائے گئے ہیں۔ نتیجتاً کوئی بھی ڈرائیور رفتار کم کرنے کی زحمت نہیں کرتا، کیونکہ نہ قانون کا نفاذ نظر آتا ہے اور نہ سزا کا خوف۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شاہراہ ایک حادثہ گاہ بنتی جا رہی ہے۔علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ کئی بار ضلعی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کو تحریری اور زبانی طور پر اس مسئلے سے آگاہ کیا گیا، مگر تاحال کوئی مؤثر اقدام عمل میں نہیں لایا گیا۔ اگرچہ ٹریفک پولیس بعض اوقات گشت ضرور کرتی ہے مگر وہ مستقل نہیں،

جس کی وجہ سے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔چوک پنڈوڑی ٹورازم ہائی وے پر حادثات کا ایک بڑا سبب سڑک کی ساخت بھی ہے، جہاں جگہ جگہ خطرناک موڑ، ڈھلوانیں اور غیر واضح کراسنگ پوائنٹس موجود ہیں۔ ان مقامات پر رفتار کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں اکثر قابو سے باہر ہو جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں حادثات پیش آتے ہیں۔شہریوں کا مطالبہ ہے کہ اس سڑک پر تین بنیادی اقدامات فوری طور پر کیے جائیں:
اول، جدید اسپیڈ چیکنگ کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ تیز رفتار گاڑیوں کو ریکارڈ کرکے جرمانہ کیا جا سکے۔دوم، حساس مقامات، اسکولوں، بازاروں اور آبادی کے قریب اسپیڈ بریکرز تعمیر کیے جائیں۔سوم، ٹریفک پولیس کی مستقل نفری تعینات کی جائے تاکہ قانون کی عملداری یقینی بنائی جا سکے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ سڑک سیاحت کے فروغ کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں،

بزرگ سڑک پار کرتے ہوئے لرزتے ہیں اور موٹر سائیکل سوار ہر لمحہ جان کے خطرے میں رہتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج ہے بلکہ ایک سنجیدہ انسانی المیہ بھی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کیا متعلقہ ادارے اس بڑھتے ہوئے مسئلے کا نوٹس لیں گے؟کیا چیف ٹریفک آفیسر راولپنڈی اور ضلعی انتظامیہ اس خطرناک صورتحال کو سنجیدگی سے حل کریں گے؟ یا پھر مزید قیمتی جانوں کے ضیاع کا انتظار کیا جائے گا؟یہ وقت محض زبانی دعوؤں کا نہیں بلکہ عملی اقدامات کا ہے۔

اگر آج مؤثر پلاننگ کر لی جائے، تو آنے والے دنوں میں درجنوں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی جدید ٹریفک مینجمنٹ نظام متعارف کروانے کی اشد ضرورت ہے۔چوک پنڈوڑی ٹورازم ہائی وے اب صرف ایک سڑک نہیں بلکہ ایک آزمائش بن چکی ہے۔ یہ آزمائش عوام کی بھی ہے اور حکمرانوں کی بھی۔ دعا یہی ہے کہ اس تحریر کے ذریعے ذمہ دار ادارے جاگیں اور اس شاہراہ کو ایک محفوظ راستہ بنایا جا سکے، نہ کہ ایک خونی ٹریک۔

شہباز رشید