والدین زندہ‘بچے یتیم/ عبد الجبار چوہدری

کہوٹہ سے خبر مختلف اخبارات میں شائع ہوئی کہ سنگ دل ماں چھوٹے چھوٹے دو بچوں کو شہر کے ایک بڑے ہوٹل کی میز پر چھوڑ کر چلی گئی اسسٹنٹ کمشنز کہوٹہ نے اطلاع پاتے ہی ان کو اپنی تحویل میں لے لیا

اور بچوں کی دادی کے حوالے کیابچوں کا باپ بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں گیا ہوا ہے بظاہر یہ داستان جتنی سادہ لگتی ہے حقیقت میں اتنی کربناک اور سبق آموز ہے جب حضرت موسی ؑ کی پیدائش ہوئی اور امر ربی کے تحت آپ کو صندوق میں بند کر کے دریا کی نذر کر دیا گیاآپ کی ماں نے پانی کے بہاؤ کے ساتھ جا کر جو گھر آپ کا مسکن ہوا وہاں اگلے دن حاضر ہوئیں اور بچے کو دودھ پلانے پر مامور ہو گئیں آغوش مادر سے محروم نہ ہونے دیا گیا

حضرت حاجرہؓ کو جب امر ربی کے تحت حضرت اسماعیل کے ساتھ لق و دق صحرا میں چھوڑا گیاجہاں دور دور تک پانی اور زندگی کے آثارنہ تھے اس وقت حجرت حاجرہؓ کی کیفیت کا اندازہ ایک ماں ہی کر سکتی ہے کہ آپ پانی کی تلاش میں ان سنگلاخ پتھروں کو پاؤں تلے روندے ہوئے پہاڑ پر چڑھتیں اور اسی تیزی کے ساتھ واپس اپنے کے پاس آتیں کہ کوئی مبادا چیز نقصان نہ پہنچا دیاایک ماں کی تڑپ قیامت تک مسلمانوں کے لیے حج کو رکن بن گئی اور اس بچے کی ایڑھیوں سے پھو ٹنے ولا چشمہ قیامت تک کے لیے جاری ہوا

ماں کی اس سنگ دلی کا جب میں نے کھوج لگانے کی کوشش کی تو یہ تحصیل کہوٹہ کے گاؤں کے ہر اس گھر کی کہانی معلوم ہوئی جہاں کا نوجوان بیوی اور ایک یا دو بچوں کو اپنے ماں باپ یا بہن بھائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خو د روزگار کی خاطر بیرون ملک خصوصا خلیجی ممالک میں مقیم ہے چونکہ اس کی دانستہ غیر موجودگی میں اس کے ماں باپ اس کے بیوں بچوں کے نان نفقے کے ذمہ دار ہیں اور وہ اس لیے تما م روپے پیسے بھی ماں باپ یا بہن بھائیوں کو بھیجنے کا مکلف ہوا لہذا اس کی بیوی اور بچے صرف کھانے پینے تک محدود ہوئے کئی بچوں کو میں نے روتے دیکھاکہ تمارا باپ تو ہے

ہی نہیں کیونکہ ہم اس کے ہوتے ہئے بھی زندگی کی ضرورتوں اور مسرتوں کے لیے ترس رہے ہیں ہمارے لیے اس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کماتے جن کے لیے ہیں وہ ترس رہے ہیں اور جن کے لیے وہ پردیس میں مشکلیں جھیل رہے ہیں ان کے لیے تو رمق بھی باقی نہیں بچ رہی چک کے دو باٹوں میں اس کے بیوی اور بچے پس رہے ہیں انہیں ڈھنگ کا کھانا ، نہ پینا میسر آتا ہے سکول، مسجد ، راستے میں آتے جاتے ہر اہم تہوار کے موقع پر سہمے ہوئے رہتے ہیں باپ کے ہوتے ہوئے یتیمی یہ کیسی زندگی ہے جو وہ جی رہے ہیں باپ جب شام کو کام سے گھر لوٹتا ہے

تو بچوں کی اٹکیلیاں اوراچھل کود دیکھنے کے قابل ہوتی ہے اور گھر کے آنگن میں ایک ہلچل پیدا ہوجاتی ہے صبح فرمائشوں کے جلوس جب کام پر نکلتا ہے تو ان فرمائشوں کو پورا نہ کرنے کی سکت رکھنے کے باوجود جب شام کو گھر لو ٹتا ہے تو بچے اس سے لپٹ رہے ہوتے ہیں حضرت عمر فاروقؓ ایک دفعہ گشت کر رہے تھے ایک جگہ سے گزر ہوا ماں نے ہنڈیا چولہے پر چڑھائی رکھی تھی اور آگ بھی بڑی زور سے چل رہی تھی بچے آس پاس بلک بلک کر رو رہے تھے اور ماں ان تسلی دے رہی تھی جب واپسی پر آپ کا گزر ہوا تو بچے رو رو کر سو چکے تھے مگر ہنڈیا بد ستور چولہے پر تھی آپ نے اس عورت سے پوچھاکہ کیا پکا رہی ہو جس کے انتظار میں بچے بھی سو چکے اس عورت کے جواب خلیفہ نے وقت کوبھی ساکت کر دیاکہ چند پتھر پانی کے اندر ڈال کر ہنڈیا چڑھا رکھی ہے

اس امید پر کہ بچے بہل کر سو جائیں گے ایک ماں کیسے بچوں کی بھوک کو بہلا سکتی ہے خلیفہ وقت الٹے پاؤں بیت المال کی طرف آئے بھوری آٹے کی اپنے کندھوں پر اٹھا کراس عورت کے گھر پہنچاتے ہیں اس کے روٹی پکانے تک وہیں کھڑے رہتے ہیں.
ماں کیسے سنگدل ہوسکتی ہے کیا مائیں بھوکے بچوں سمیت کنوئیں میں چھلانگ لگانے کے واقعات نہیں ہو رہے خدارا جن ماؤں کے بچے ہوتے ہیں ان کے لیے مشکلات نہ کھڑی کی جائیں ان کی کڑوی کسیلی باتوں کو وجہ بنا کران کو سزائیں نہ دی جائیں ان کے لیے آزمائشوں کے پہاڑ نہ کھڑے کیے جائیں ان کے بچے ہی ان کے لیے آزمائش ہیں کیا یہ کم ہے کہ ان بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کما حقہ حق ادا کی جائے کیا کبھی کوے کو مرغی کے ننھے بچوں پر جھپٹے دیکھا ہے کہ وہ کس طرح ان کو پروں کے نیچے چھپا کر خود سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی ہے یہ دنیا دارلعمل ہے اسے دار لمکافات نہ بنائیں ایک دوسرے کی مدد ۔توقیر اور آسانی کے لیے کام کر نا انسان کی اصل ہے

دوسرے کے دکھ ، تکلیف اور رنج و الم میں اضافہ کرنے کا نام زندگی نہیں ہے ہمارے بیرون ملک روزگار کے سلسلہ میں جو شادی شدہ مرد حجراے مقیم ہیں ان کو پاکستان میں اپنے بال بچوں کے بارے میں حقیقت پسندانہ سوچ رکھنی چاہیے اور ان کی ضرورتوں کے لیے و افر رقم وقت پر مہیا کرنے کے اقدامات کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن کی کفالت میں وہ اپنے کنبہ کو چھوڑ رہے ہیں وہ ان کا اتیصال تو نہیں کر رہے اگر خود مختار ہیں تو پھر بھی ان کی حفاظت لازم اور ضرورتوں کا مناسب بندوبست ہے کہ نہیں یہ کام ان کے کرنے کے ہیں جن کے بیوی اور بچے ہیں ۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں