انٹرویو: شہزادرضا
چوہدری محمد افضل کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے لیڈر کے اندر اگر ’’سیاسی ورکر‘‘ ہونے کی خوبی موجود ہو تو وہ اپنی طرز سیاست سے عوام میں مقبولیت کے جھنڈے بڑی جلدی گاڑ لیتا ہے بطور سیاسی ورکر تربیت حاصل کرنیوالے سیاست دان اور مال و زر کے بل بوتے پر سیاست کرنے والے سیاستدان میں بہت فرق ہوتا ہے کیوں کہ طاقت کا سرچشمہ ہمیشہ عوام ہوتے ہیں اور عوام کے دلوں میں زندہ رہنے کے لیے عوامی انداز سیاست اپنانا ہوتا ہے ایسی ہی ایک شخصیت جو گزشتہ عام انتخابات میں حلقے کی سیاست میں زبردست انداز میں نمودار ہوئی اور آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کے باوجود ٹکٹ ہولڈرز کو ناکوں چنے چبوائے جی ہاں ! میں بات کر رہا ہوں چوہدری محمد افضل کی جن کا تعلق چونترہ کے علاقہ پڑیال سے ہے 1988سے سیاست کے سفر کا آغاز کرنے والے چوہدری محمد افضل فرسٹ ائیر کے طالبعلم تھے جب ان کے والد محترم اور بڑے بھائی چوہدری محمد صفدر انتخابی سیاست میں حصہ لیتے تھے اس طرح سیاسی تربیت گھر سے ہی حاصل کی بطور ممبر ضلع کونسل 1998ء میں پہلی مرتبہ انتخابی سیاست میں حصہ لیا پھر 2001کے بلدیاتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر ناظم یونین کونسل منتخب ہوا لیکن چوہدری نثار علی خان نے اقتدار میں ہونے کی وجہ سے ہمارے نتائج روکے اور ہمارے پولنگ ایجنٹ اٹھوا لیے ہم نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے ہم پر جھوٹے مقدمات درج کروائے اور ہمیں جیلوں میں ڈالا چوہدری نثار علی خان نے ہمیشہ انتقامی سیاست کی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے باپ دادا کا طرز سیاست بھی ایسا ہی تھا انھوں نے لوگوں پہ جھوٹے مقدمات کیے ’ علاقے میں سکول ‘ کالج اور ہسپتال نہ بننے دئیے، چوہدری نثار علی خان کو ’گھٹی ‘میں انتقامی سیاست ملی تھی اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے ‘ میں نے چوہدری نثار علی خان کی تین پشتوں پر مشتمل سیاست دیکھی ہے جس میں ان کا کام صرف اور صرف اساتذہ کے تبادلے ‘ بے گناہ لوگوں پہ جھوٹے مقدمات بنانا ہی رہا‘ ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جب چکری سکول کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا تو بریگیڈئر فتح علی خان ‘ پیپلز پارٹی کے چوہدری محمد اسلم کے پاس چلے گئے اور کہا کہ تم پاگل ہو یہ سکول کیوں بنار ہے ہو اگر یہ ادارہ بن گیا تو یہاں کے لوگ ہمارے آگے کام نہیں کریں گے علاقے میں ترقی کا سہرا انھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد اسلم کا کارنامہ قرار دیا اور بتایا کہ ہمارے علاقے کی بڑی سڑکیں ان کے دور میں بنیں یا پھر غلام سرور خان کے دور میں بنیں اسی طرح بجلی کے منصوبے بھی ان دوشخصیات نے دئیے بدھال اور جٹھہ ہائیر سکینڈری سکول غلام سرور خان نے دئیے 2002 سے 2007کے دور حکومت میں غلام سرور خان نے ٹیوٹا کالج‘ گرڈ اسٹیشن ‘ ڈگری کالج بوائز چکری ‘ گرلز ڈگری کالج سہال ‘ سروبہ اور بھگرا مجاہد پل اور چکری بائی پاس دئیے،ماسوائے سڑکوں کے 3دہائیوں میں چوہدری نثار نے علاقے میں کوئی میگا پروجیکٹ نہیں دیا 35 سال اقتدار چوہدری نثار کے پاس رہا لیکن کام نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ غلام سرورخان کے پاس کم وقت اقتدار رہا پھر بھی 90فیصد کام ان کے ادوار میں ہوئے ‘ چونترہ اور چک بیلی خان میں پسماندگی کے سوال پر انھوں نے کہا کہ جتنا اقتدار چوہدری نثار کے پاس رہا اتنے عرصے میں تو علاقے کی تقدیر بدل جاتی ہے لیکن انھوں نے تو صرف انتقامی سیاست کی ،تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے انھوں نے بتایاکہ 1988ء میں کرنل حبیب ٹیکسلا واہ سے 17ہزار کی لیڈ لے کر آئے مگر یہاں کے لوگوں نے چوہدری نثار علی خان کو عزت دیتے ہوئے 21ہزار کی لیڈ سے کامیاب کیا ‘ 1990میں غلام سرور خان 25ہزار کی لیڈ لے کر آئے ٹیکسلا واہ سے جبکہ چونترہ اور چکری والوں نے 28ہزار کی لیڈسے انھیں کامیاب کیا یہ دو مثالیں کافی ہیں عوام نے انھیں کتنی عزت دی مگر انھوں نے عوام کو بدلے میں انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا بدلے میں پسماندگی دی آج اگر ان کی سیاست کا جنازہ نکلا ہے تو وہ صرف چونترہ اور چکری کے لوگوں کی وجہ سے گزشتہ انتخابات میں یہی لوگ جو انھیں کامیاب کرتے تھے وہی ان کی ہار کا باعث بن گئے ‘ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غلام سرور خان سیاسی ورکر کی حیثیت سے گھر سے نکلے تھے آج وہ وفاقی وزیر ہیں ہم ان کی مشاورت کے ساتھ چلتے ہیں وہ منجھے ہوئے سیاستدان ہیں انھیں معلوم ہے کون کس جگہ پہ بہتر انداز میں کام کر سکتا ہے ‘ بطور صوبائی اسمبلی امیدوار کے انتخابات میں حصہ لینے کے سوال پر جواب دیتے ہوئے بولے جب تحریک انصاف کے ٹکٹ کا قرعہ کسی کے نام نہیں نکل رہا تھا اس وقت مجھے معلوم تھا کہ میں آزاد حیثیت میں کامیاب حاصل نہیں کر سکوں گا لیکن پھر بھی قیادت پر بھروسہ کرتے ہوئے میدان میں نکلا مقصد ایک ہی تھا چوہدری نثار علی خان کو شکست فاش دینی ہے ‘ علاقے کی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ چند دنوں میں مجھ پر مہربانی کرتے ہوئے ریکارڈ ووٹ دئیے اور قومی اسمبلی میں غلام سرور خان کو بھی کامیاب کیا اگر تحریک انصاف پی پی 10کا ٹکٹ مجھے ملتا تو تمام امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جاتیں یہ سیٹ نہ جیتنے کی ایک وجہ ٹکٹ کا دیر سے فیصلہ ہونا تھا اور پھر جب خواتین کوٹے کے مطابق ساگری کی رہائشی میڈم نوید سلطانہ کو ٹکٹ دیا گیا تو وہ صرف اس شرط پہ دیا گیا تھا کہ انھوں نے الیکشن سے دستبردار ہوجانا ہے مگر وہ بضد ہو گئیں جس سے ووٹ تقسیم ہوئے اور یہ سیٹ تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل گئی ‘ چوہدری نثار کے صوبائی اسمبلی کے حلف نہ اٹھانے پر چوہدری نثار کو مشورہ دیتے ہوئے بولے کہ انھیں چاہیے کہ وہ اسمبلی میں جائیں اور سنگل بینچ پر بیٹھ کر یہ بتائیں کہ عوام کے ووٹ کی توہین نہیں کر رہا کیوں کہ ہمیشہ سے وہ اس بات کے دعوے دار رہے اسمبلی کے اندر اور باہر حلقے کے عوام کی جنگ لڑتا ہوں حلف نہ اٹھانے پر ان کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس بھی چل رہا ہے ‘ پی پی 10کے ٹکٹ کا تاخیر سے فیصلے آنے کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غلام سرور خان نے فیصلہ کیا تھا کہ کرنل اجمل صابر راجہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑیں لیکن وہ اس بات پر بضدرہے کہ میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہی لڑوں گا لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ ان کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کا نقصان ہوا اگر وہ مان جاتے تو آج چوہدری نثار انتخابی سیاست بالکل فارغ ہو جاتا اور کرنل اجمل ممبر صوبائی اسمبلی ہوتے ‘ این اے 57میں بننے والی ایڈوائزری کمیٹیوں پر تبصرہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وفاقی وزیر پٹرولیم نے این اے 59اور پی پی 10کی کمیٹیاں بنا دی ہیں جن کا باضابطہ اعلان وہ خود کریں گے ‘ جعلی ڈگری کیس کو فلاپ کیس قرار دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری نثار 2001 سے جعلی ڈگری کا ڈھول 22سالوں سے بجا رہے ہیں لیکن آج تک کچھ نہ نکلا ‘این اے 57میں مداخلت کے سوال کے پر ہنس کر بولے اور کہا کہ ہم پی پی 10میں مداخلت کرتے ہیں جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ بالکل غلط ہیں غلام سرور خان یا ان کے آدمی بالکل کسی کے حلقے میں مداخلت نہیں کرتےُ چک بیلی خان کو تحصیل بنائے جانے کے سوال کے جواب انھوں نے پنڈی پوسٹ کو بتایا کہ اس پہ کام ہو رہا ہے ٹیکنیکل پیچیدگیاں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں جنھیں دور کرنے کے بعد ہی معاملہ حل ہوتا ہے ہماری کوشش ہے اسی دور حکومت میں یہ کام سرانجام دیا جائے ‘روات سرکل اور تحصیل کلرسیداں کے وفاشعار دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری شکیل وینس ‘ حافظ ملک سہیل اشرف اور راجہ آفتاب حسین جنجوعہ نے پارٹی لائن سے ہٹ کر میری سپورٹ کی میں ان کا اور ایسے تمام ساتھیوں کا جن کے نام تومجھے معلوم نہیں لیکن میرے لیے دن رات کام کیا ان کا ہمیشہ مشکور رہوں گا ۔
172