نائب وزیراعظم/عبدالجبار

نائب کا مطلب قائم مقام‘مختاریا سفیر کے ہوتے ہیں نائب اصل کا مظہر ہوتا ہے اصل کے دائرہ اختیار کو استعمال کرتا ہے اس کے اعتمادکی وجہ سے فیصلہ سازی بھی کرتا ہے

اس کے متعین کردہ اہداف کے حصول کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے بیک وقت کئی نائب ہو سکتے ہیں اور بسا اوقات ایک نائب پر اکتفا کیا جا سکتا ہے بہر حال نائب کلی اختیار کا حامل نہیں ہوتا ہے

حتمی اور بنیادی اختیار اصل کے پاس ہی ہوتا ہے وہ جب چاہے اختیار تفویض کرے جب جس وقت چاہے واپس لے لے نائب کو مقرر کرنے‘معطل کرنے یا برطرف کرنے کی طاقت بھی اصل کے پاس ہی ہوتی ہے

نائب کو اپنے اختیارات کے استعمال اور احکامات کے جاری کرنے میں اصل کی خوشنودی‘رضا مندی کا حصول بہت ضروری ہوتا ہے نائب کا کام ان تمام متعین حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے

فرائض کی انجام دہی ہوتا ہے کوتاہی‘بے احتیاطی اس کی برطرفی کا سبب بنتی ہے ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے بھی اس کو اپنی پوزیشن سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں

نائب کی غلطی کی درستگی ابتدائی سطح پر ہی ممکن ہوتی ہے 1973کے آئین پاکستان کی روشنی میں وزیراعظم تمام انتظامی اور ملکی نظم ونشق کا ذمہ دار ہوتا ہے

کابینہ جو وزیروں اور مشیروں پر مشتمل ہوتی ہے کی مدد اور مشورے سے فیصلہ سازی کرتا ہے رائے متفرق ہو یا متفق حتمی فیصلے کی ذمہ داری اور نفع نقصان کا وہ اکیلا ذمہ دار ہوتا ہے

اس کی غیر موجودگی میں سینئر وزیر نائب کے فرائض انجام دیتا ہے بعض اوقات فوری فیصلہ کرنا ہوتا ہے اس کیلئے کابینہ سے سرکولیشن سمری کے ذریعے منظوری لینا پڑتی ہے

وزیراعظم کواٹھارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے چھٹی پربھی نہیں جا سکتا جب وزیراعظم ذہنی تھکاوٹ کو دور کرنے کیلئے کسی صحت افزا مقام کا رخ کرتا ہے

تو اسے فرائض سے غفلت برتنے والا کا طعنہ دیا جاتا ہے اگر کسی وزیر سے مسلسل رابطے یا مشورے کرتا ہے تو اسے کچن کیبنٹ کا نام دیا جاتا ہے کسی ادارے کے سربراہ کو براہ راست مشاورت کیلئے طلب کرتا ہے

تو اس محکمے کے وزیر کی ناراضگی مول لینا پڑتی ہے وزیراعظم بے بسی کی تصویرنظر آتا ہے اس کسمپرسی اور بے سکونی سے نہ تو وہ حالات کا عمیق نظر سے جائزہ لے سکتا ہے

اور نہ ہی اپنی رائے کا اظہار کیلئے کوئی تیاری کر سکتا ہے ہر جگہ اور ہر کام کیلئے اسے موجود رہنا پڑتا ہے وزیراعظم کے کام کی تقسیم بہت ضروری ہے آئین میں نائب وزیراعظم کا عہدہ تخلیق کرکے

ایسے اختیارات وزیراعظم سے تفویض کرے جو خالصتاََ انتظامی امور سے متعلق ہوں پھر ان پر نظر رکھے اور ان کے اثرات کا جائزہ لے انتظام بہتر ہو گا اور نظم وضبط بھی پیدا ہو گا

وزیراعظم کی کارکردگی اچھی نہ ہونے کی یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس لامحدود کام ہیں جن کاموں پر فوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے بعض اوقات بے خبر ہوتا اور لاتعلق رہتا ہے

بگاڑ کی صورت میں براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے وزیراعظم کا بوجھ کوئی دوسرا اٹھانے والا نہیں ہے کسی مجبوری کے باوجود اسے ہر حال میں کام کرنا ہے اگر وزیراعظم کوتادیبی کاروائی یعنی عدم اعتماد کا سامنا ہو تو اس کے فیصلے تک نائب کے کام کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں