اللہ تعالیٰ نے ہمیں جغرافیائی اعتبار سے بہترین زرخیز ملک اور خطہ عطا کیا ہے جو بے بہا نعمتوں سے مالا مال ہے‘ سونا چاندی تابے کے علاوہ دیگر قیمتی دھاتوں کے خزانے اس میں دفن ہیں۔ نایاب قیمتی پتھر اور ہیرے جواہرات کی فراوانی ہے تیل گیس اور کو ئلہ کی کمی نہیں‘ دریا نہر یں اور آبپاشی کا نظا م موجود ہے جس کی بنا پر زرخیز زمین سونا اگل رہی ہے۔
کونسا پھل اور کو نسی زرعی جنس ہے جو پاکستان میں نہیں اگتی۔پاکستانی قوم محنت کش اور جفاکش ہے۔پاکستانی قوم کا شمار دنیا کی ذہین ترین قوموں میں ہوتا ہے اس سب کچھ کے باوجود ملک میں اقتصاد ی اور معاشی عدم استحکام نے ایک سنگین ترین بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں دو سری طرف اخبار ات الیکٹرو نک میڈیا اور خصوصاََ سوشل میڈیا جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کیسے اس عظیم،مملکت کی معیشت تباہ وبر باد ہو ئی اور کیسے اس ملک کو قر ضوں میں جکڑ دیا گیا اور ان قرضوں کی رقم کہا ں خرچ ہوئی ملکی وسائل سے ما لا مال ہونے کے باوجود اس قوم نے کشکول کیوں ہاتھ میں پکڑا؟
اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ حکمران طبقے کو جو مراعات و سہو لیات میسر ہیں اور جس قسم کی وہ پر آسائش زندگی گزار رہا ہے وہ تمام کا تمام عوام کے ٹیکسوں کی رقم کی بدولت ہی ہے۔ ہو ا یو ں کہ جب حکمران طبقے کو ٹیکسوں سے ان سہولیات اور مراعات کے لئے مطلوبہ رقم نہ ملی تو وہ مقامی اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے لگا تا کہ حکومتی اخراجات پورے ہو سکیں۔
عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر لی گئی امداد اور قرض کو اوپر کی آمدنی سمجھ کر حکمرا ن طبقہ پھلنے اور پھولنے لگا اس نے خود کو مراعات یا فتہ بنا لیا اور اپنے آپ کو اَن گنت سہولیات دے ڈالیں بتدریج حکمران طبقے نے اپنا معیار زندگی بلند رکھنے کی خاطر قرضوں اور امداد کی رقم کو استعمال کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا۔
آج یہ عالم ہے کہ سرکاری خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ لینے والے ارکان اسمبلی وزیر‘ مشیر‘ سرکاری افسر‘جر نیلوں‘ججوں وغیرہ کو مفت پیٹرول بجلی گیس پانی رہائش سکورٹی اور فضائی ٹکٹ وغیرہ ملتا ہے وہ مختلف قسم کی مراعات و سہولت سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ پچاس ہز ار روپے ماہانہ کمانے والا ایک عام پاکستا نی ہر قسم کا ٹیکس ادا کرتا ہے۔
مہنگائی اور بے روز گاری سے عوام پر یشان ہیں یہ سراسر بے انصافی ہے جس کی بنا پر ملک میں سیاسی افرا تفری، غیر یقینی صورتحال‘ عدم تحفظ‘ عدم استحکام اور انتشار عروج پر ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہو تاہے کہ ان تمام معاملات اور واقعات کے پیچھے بین الاقوامی سازش‘ عالمی منافع خوری‘یہودی سٹے باز اور ملک دشمن عناصر کی چال ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے اس معاشی اور اقتصادی بحرانی صورتحال کی وجہ سے غریب عوام خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے مالی سال 2023-24کی آ ڈٹ رپورٹ میں وفاقی وزارتوں اور ڈویثرنز میں سنگین مالی بے ضابطگیو ں اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشاندہی کی ہے۔
جاری کی گئی رپورٹ میں گیارہ سو ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں نقصانات اور دیگر مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے رپورٹ میں سب سے سنگین معاملہ 35لاکھ 90ہزار ٹن گندم کی درآمد کو قرار دیا گیا یہ درآمد اس وقت کی گئی تھی جب ملک میں مقامی سطح پر وا فر مقدار میں گندم موجود تھی یہ بھی تصدیق کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کا تین
سوارب روپے کی گندم درآمد کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔وفاقی کا بینہ نے پانچ لاکھ میٹر ک ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دی ہے ایک سال کے دوران ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن چینی برآ مد کر نے کے بعد اب پانچ لاکھ میٹرک ٹن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ چینی برآمد کر نے کی اجازت اس وقت دی گئی تھی جب شوگر ملز نے مقامی قیمتوں کو 145سے150روپے فی کلو کے درمیان رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اب چینی دوسوروپے فی کلو فروخت کرنے کے قریب ہے اور حکومت ان لوگوں کو ڈھونڈ نہیں پا رہی ہے جن سے چینی بر آمد کرتے وقت چینی کی قیمت کو 145سے 150فی کلو کے درمیان رکھنے کا وعدہ لیا گیا تھا۔
لگتا ہے وہ کہیں آسمان پر چلے گئے ہیں یا کسی اور سیارے پر جا بسے ہیں اگر وہ مل جاتے تو حکومت یقیناچینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے میں کا میا ب ہو جاتی اب حکمرانوں کو اس کے سواکو ئی چارہ نظرنہیں آتا کہ جتنی چینی بر آمد کی تھی اُتنی درآمد کر لی جائے عوام سے ٹیکسو ں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے لیکن وسائل کا یہ جو بے دریغ ضیا ع ہو رہاہے اس کی طرف کسی کی نظر نہیں شاید کسی کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاملات پر توجہ مبذول کر سکے۔
عوام ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کوئی لاء نہیں یہ بھی تو بتائے کہ ٹیکسوں کی رقوم جاتی کہاں ہیں؟عوام سے ٹیکس بھی لیے جا رہیں او ر ملک پر اربوں ڈالر قرضوں کا بوجھ بھی لاد دیا گیا ہے ایک طرف ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ اور دوسری طرف قرضوں کے حجم میں اضافہ اور تیسری جانب حکومتی ادا روں کی کارکردگی کا یہ عالم کہ جس کا بھی تھوڑا گہر ائی تک جائزہ لیا جائے اسی میں افراتفری بے ایمانیا ں اور بے ضابطگیاں نظر آتی ہیں۔
اربو ں روپے کی مالی بے ضابطگیوں نقصانات اور دیگرمسائل کا کوئی تو ذمہ دار ہو گا کیا وجہ ہے کہ ذمہ داران کا تعین نہیں ہو پاتا؟ بد دیانتی اور بے ایمانی کرنے والوں کو سزا نہیں ہوتی؟یہ سلسلہ اگر بلا روک ٹوک اسی طرح چلتا رہا تو اس سے دگنے تگنے ٹیکس بھی جمع کر لیے جائیں اور اس سے دس گنا زیادہ قرض بھی لے لیا جائے تو پھر بھی ملک اور قوم کے حالات ٹھیک ہونے والے نہیں ہیں۔
کچھ عوام کا بھی خیال رکھیے ویسے تو عوام کے حقوق کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اگر حکومت یہ ذمہ داری محسوس نہیں بھی کرتی تو عوام کو انسان تو سمجھا جائے معاشی و اقتصادی بحرانی صورتحا ل سے نکلنے کے لیے بلا تفریق ہم سب کو چند کام کرنا بہت ضروری ہوں گے۔ ہم سب کو اپنے ملک سے محبت کے عہد کی تجدید کرنا ہو گی اس لیے کہ ملک ہے تو ہم سب ہیں اگر خدا نخواستہ ملک غیر مستحکم ہوایا اسے کچھ ہو گیا تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا ہم سب کو خلوص نیت سے اس ملک کی ترقی و استحکام کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں سادگی صداقت،امانت اور دیانت کا پاس رکھتے ہوئے محنت جدوجہد اور کوشش کرنا ہو گی۔
تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر اتفاق سے میثاق معیشت مرتب کریں حکومت جس پارٹی کی بھی ہو اس میثاق معیشت پر کا م برابر جاری رہے گا اور جو حکومت بھی اس کے خلاف کرے گی قانوناً مجرم قرار پائے گی اور آئین میں اس کی سزا تجویز کی جائے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ملکی ترقی کے سلسلے میں اپنی اپنی جماعت کی ترجیحات اور پالیسیاں بنائیں بیرونی مفادات یا ان کے منظور نظر ہونے کے لیے کوئی پالیسی نہ بنائیں انہی چیزوں نے ہمارے ملک کو آج تک ترقی سے روک رکھا ہے چونکہ ہمارا ملک زرعی ہے اور زراعت کی ترقی پانی کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے پانی ذخیرہ کے لیے ڈیموں کا ہونا بہت ضروری ہے اور زرعی پیداوار کی ترقی اور منڈیوں تک اس کا بحفاظت پہنچانے کا خاطرخواہ انتظام ہونا بھی بہت ضروری ہے۔
بے جا خرچ ہونے والی سرکاری قوم پر کنٹرول کر کے سرکاری قرضوں کی وصولی کو یقینی بنایا جائے اور ملکی معیشت کو ہر سطح پر سود سے پاک کرنے کی جلد از جلد کوشش کی جائے اس سے بھی ملکی معیشت کو بہت زیادہ سنبھالا ملے گا سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا حکمران اور مقتدر طبقہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک نظریہ پاکستان کے نفاذ میں مجرمانہ غفلت اور پہلوکہی کرتا آیا ہے جبکہ آج بھی ہر حلف میں یہ عہد لیا جاتا ہے کہ میں اسلامی نظریہ جو کہ پاکستان کی اساس ہے اس کی حفاظت کروں گا اور اس کے لیے کوشاں رہوں گا لیکن آج تک کسی نے اس کی پاسداری نہیں کی۔کیا یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ میں خلوص نیت سے عملی کوشش شروع ہو جائے اس سے جہاں بہت ساری خرابیوں کا سدباب ہو جائے گا وہاں اللہ تعالی کا کرم اور مدد بھی شامل حال ہو جائے گی اور ملک سے ہر قسم کی بحرانی کیفیت ختم ہو جائے گی۔