قوت و اخوت۔ایمان داری۔سچائی ہم ہر محاذ پر پسپا ہیں کیونکہ ہم اپنی اپنی ذات میں قید ہیں‘ ہم میں سے نکل کر ہم داخل ہوکر ہی بقا پاسکتے ہیں۔ لیکن ایسا ممکن دیکھائی نہیں۔ پڑتا خود کو قانون کے رکھوالے کہنے والے درحقیقت قانون کو ہاتھوں میں رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں
اور یہی معاشرتی بگاڑ کا سبب ہے ہمارے ادارے ہر طرح سے ناکام ہیں اگر یہ ادارے اور ان میں بیٹھے نالائق اور نااہل لوگ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو ملک ہر برائی سے پاک ہوسکتا ہے۔
لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ یہاں اداروں میں بیٹھے لوگ اپنی زمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے صرف تتخواہوں بٹوارنے اور مال۔مفت جمع کرنے کے لیے آتے ہیں
پاکستان کا کوئی محکمہ کرپشن سے پاک نہیں عوام کا جائز کام۔بھی رشوت لے کر ہی کیا جاتا ہے رشوت نہ دینے پر بیسیوں قانونی پوائنٹ بتا کر سائل کو اس قدر پریشان کردیا جاتا ہے کہ وہ رشوت دینے پرمجبور ہو جاتا ہے۔۔آج فیس بک پر بیول کے ایک صحافی دوست کی آئی ڈی پر انچارج قاضیاں پولیس چوکی کے کی ایک وڈیو دیکھنے کو ملی جس میں وہ عوام کو آگاہی دیتے پائے جاتے ہیں کہ وزیراعلی پنجاب کی جانب سے منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کے سخت احکامات دئیے گئے ہیں جس کے باعث پولیس منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے جارہی ہے۔
اس لیے عوام سے اپیل کی گئی کہ عوام اپنے علاقوں میں منشیات فروشوں کی نشاندھی کریں۔ان۔کا نام راز میں رکھا جائے گا۔بظاہر تو یہ بڑی خوش کن گفتگو ہے اور لوگ امید کرسکتے ہیں کہ پولیس واقعی منشیات فروشی کے سدباب کے لیے سنجیدہ اقدام۔اٹھانے جارہی ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے
کہ کیا پولیس تو منشیات فروشوں بارے علم نہیں؟؟ صحافی کی طرح پولیس کے بھی ذرائع اور مخبر موجود ہوتے ہیں جو انہیں چپے چپے کی خبر سے آگاہ رکھتے ہیں علاقے کا ایس ایچ او یا چوکی انچارج کس طرح ان سے بے خبر رہ سکتا ہے اس وقت بیول اور گرد ونواح میں منشیات کا کاروبار عروج پر ہے۔آئس۔چرس۔دیسی شراب اور وسکی باآسانی دستیاب ہیں۔بلکہ آئس تو ہمارے تعلیمی ادارے تک بھی پہنچ چکی ہے لیکن یہاں عوام سے پوچھا جارہا کہ وہ بتائیں منشیات فروش کہاں ہیں۔اگر منشیات فروشی کا قلع قمع کرنا ہے
تو عوام سے پوچھنے کے بجائے اپنے مخبروں کو ایکٹو کریں۔اور پہلے سے موجود اپنی انفارمیشن سے استفادہ کریں۔یہ تو کسی طور ممکن نہیں کہ پولیس منشیات فروشوں بارے نہ جانتی ہو یاد رکھیں زندگی کا دائرہ دھیرے دھیرے تنگ ہورہا ہے سوال یہ ہے کہ اتنے گھٹن زدہ ماحول میں ہم اپنی نسل۔نو۔کو کیا دے رہے رہے ہیں بہت ضرورت ہے اس حبس کو دور کرنے کی بہت ضرورت ہے تازہ ہوا کے لیے کھڑکیاں کھولنے یہ نہ رسمی باتیں ہیں اور نہ کتابی بلکہ یہ تو زندگی کی تلخ حقیقت ہے
جس سے آنکھیں چرانے کا مطلب مزید تباہی ہے۔معاشرہ دیسی ہو یا بدیسی لالچ اور مفادات کے فارمولے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں ہر شخص کی زندگی میں ایسا اسرار چھپا ہوتا ہے کہ کوہے چاہے نہ چاہے
لیکن مفادات پر کمپرو مائز کرتا ہے اگر چہ انسان کے تصورات اور بلند خیالات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی مگر معاشرے میں رہنے اور ماحول سے مطابقت رکھنے کے لیے کچھ حدود وقیود کا نفاذ،ازحد ضروری ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں بھی مفاداتی طرز عمل ہر ادارے اور ہر سطح پر یکساں طور دیکھا جاسکتا ہے
سو منشیات فروش بھی معاشرے کے مفادات پرستوں کی پشت پناہی اور قانون کی فالج زدگی کے باعث ہی اپنا کاروبار کررہے ہیں۔منشیات فروشوں کی نشاندھی کی اپیل تو تب کی جائے جب قانون کے رکھوالے خود انہیں نہ جانتے ہوں۔سب کچھ جانتے ہوئے محض فارملٹی پوری کرنے کے لیے منشیات کے خلاف کاروائیوں کے اعلانات اور نشاندھی پر مبنی اپیلوں کو صرف کمپنی کی مشہوری تصور کیا جائے۔
یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک نظام نہ بدلا جائے۔اور نظام بدلنے کے لیے انقلاب کی ضرورت ہے اور ہمارے یہاں کرپشن میں نئے انداز متعارف کروانے کو ہی انقلاب سمجھا جاتا ہے۔اور ہم ہیں کہ لفظوں کی آنچ سے پگھل جاتے ہیں