ملک کیسے چلے گا؟

پاکستانی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ یہاں کسی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ ایک تو ہمارے اکثرو بیشتر سیاستدان خود بھی کام نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ کام کرنے کے لیے تو آتے نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی ایسی خاص اہلیت ہوتی ہے کہ وہ ملک کو کسی درست سمت میں چلا سکیں۔ جو بھی آتے ہیں اپنے بینک بیلنس میں اضافے کے لیے آتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی رہتے ہیں اور یہ وہ واحد کام ہے جس میں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ باقی ملکی ترقی، دفاع اور امن و سلامتی سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اوپر سے دیگر سیاسی جماعتیں حکمران جماعت کو چلنے نہیں دیتیں۔ ایک جماعت برسر اقتدار ہوتی ہے تو دوسری اس کے خلاف سڑکوں پر ہوتی ہے۔ اگر حکمران جماعت ملکی ترقی کے لیے کچھ کرنا بھی چاہے تو اسے نہیں کرنے دیا جاتا۔ کبھی ان کے خلاف مقدمات قائم کر لیے جاتے ہیں جن کے چکر میں وہ اپنا سارا وقت برباد کر دیتے ہیں، اپنا کیا وقت تو ملک اور عوام کا برباد ہوتا ہے۔ کبھی آئے روز جلسے، جلوس اور دھرنے شروع کر دیے جاتے ہیں جن کے لیے انتظامات و اقدامات میں وقت اور پیسہ ضائع ہو جاتاہے۔
گزشتہ کئی ماہ میں کوئی ایک ترقیاتی کام نہیں ہوا جس کی وجہ یہی ہے کہ سابق حکمران جماعت کے خلاف اس وقت کی متحدہ اپوزیشن نے محاذ کھڑا کر رکھا تھا۔ تحاریک عدم اعتماد کا ایک سلسلہ چل نکلا تھا۔ سب سے پہلے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی اس کے بعد دیگر وفاقی و صوبائی عہدیداران کے خلاف تحریکیں جمع ہوئیں۔ حکمران جماعت تحریک عدم اعتماد سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے تگ و دو میں مصروف تھیں۔ نہ تو حکومت حکمرانی کے فرائض سرانجام دے رہی تھی اور نہ ہی اپوزیشن اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی تھی۔ ملک میں ایک شدید بحران پیدا ہو چکا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ملک میں عدم اعتماد کے سواکوئی کام ہو ہی نہیں رہا اور حقیقت بھی یہی تھی کہ وزیراعظم سمیت تمام وزراء عدم اعتماد کی ناکامی کے لیے کوششوں میں مصروف تھے تو ملکی مسائل کی طرف وہ کیسے توجہ دیتے۔ خیر ملکی مسائل کی طرف تو تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے پہلے بھی انہوں کوئی خاص توجہ نہیں دی اور یہ صرف تحریک انصاف نہیں بلکہ تمام جماعتوں کا مسئلہ ہے۔
ملکی ترقی کی طرف اگر توجہ دینی ہو تو کیس بننے یا عدم اعتماد آنے سے پہلے بہت وقت ہوتا ہے اور اگر ملک کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی کام کیا ہو تو کیس یا عدم اعتماد میں عوام آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ عوام کو ترقی نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے، کسی نے عوام کو دو نعروں کے پیچھے لگا دیا اور کسی نے دو سڑکوں کے پیچھے، ملک کو حقیقی ترقی کی طرف کوئی نہ لے کر جا سکا۔ عوام بھی بھولے بھالے ہیں کہ جو کچھ سیاستدانوں نے کہہ دیا اسے ہی حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں اور اسی پر ووٹ دیتے ہیں اور سیاستدانوں کو تقویت بھی دیتے ہیں۔ بلکہ آپس میں بھی جھگڑتے ہیں اور بھائیوں اور دوستوں تک کے ساتھ تعلقات صرف سیاستدانوں کے نعروں پر خراب کر لیتے ہیں۔
سیاستدانوں کی کارکردگی اچھی ہو تو پھر ان کے خلاف عوام کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیتے، عوام خود ان کے لیے مر مٹنے پر تیار رہتے ہیں اور وہ یہ سب کچھ اس وقت کرتے جب انہیں اتارا نہ گیا ہو۔ انہیں فارغ کرنے کے بعد جلسوں میں شرکت کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ حقیقی محبت کا اس وقت علم ہوتا ہے جب عہدے پر ہوتے ہوئے ان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہوں تو عوام ان کے لیے نکلیں
اور ان کی حکومت کو بچائیں۔ اس کی بہترین مثال ترک صدر طیب اردوان کی ہے کہ جب ان کے خلاف فوج میں بغاوت ہوئی تو کیسے عوام نے اپنی جان پر کھیل کر اس سازش کو ناکام بنایا اور ان کی حکومت کو بچا لیا۔ کیونکہ اردوان نے ان کے لیے بہت سے کام کیے تھے جو نعروں اور دعووں کی تک محدود نہیں تھے بلکہ عوام کو نظر آرہے تھے اس لیے عوام نے ان کی حکومت کو باقی رکھنے کے لیے بھرپور کوشش کی اور ان سے محبت کا ثبوت دیا۔
ہمارے ہاں کارکردگی کچھ نہیں ہوتی بس عوام کو لارے لگائے رکھتے ہیں اور کارکردگی کی بجائے دوسروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہتے ہیں۔ پہلے تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور میں نواز شریف کے خلاف کوششیں کر کے انہیں اتروایا۔ پھر عمران خان کی حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر انہیں اتارا۔ اب پھر عمران خان اس متحدہ حکومت کے کو اتارنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اگر وہ دوبارہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھردیگر جماعتیں ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں گی۔ اس طرح اگر یہ آنکھ مچولی کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ سیاستدانوں کو حکومتیں بدلنے سے فرصت نہیں ملے گی تو ملک کو کیسے ترقی دیں گے؟
لہٰذا سیاستدانوں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے اور جب ایک جماعت حکومت بنا لے تو دیگر جماعتوں کو پارلیمنٹ میں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی رہے اور اپوزیشن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپنی ذمہ داریاں نبھائے، تب امید کی جا سکتی ہے کہ ملک کچھ ترقی کر لے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں