ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کیلئے قانون سازی کا حکم

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ مجرموں کو اپیل کا حق دینے کیلئے 45 دن میں قانون سازی کا حکم دیتے ہوئے کہا آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا۔

جسٹس امین الدین خان نے 68 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیاجس میں جسٹس محمد علی مظہر نے 47 صفحات کا اضافی نوٹ لکھا جس سے جسٹس امین، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس شاہد بلال نے اتفاق کیا ہے ۔تحریری فیصلے میں عدالت نے ملٹری کورٹ کے سزا یافتہ مجرموں کو اپیل کا حق دینے اور 45 دن میں اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کرنے کا حکم دیاہے ۔تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے لکھا ہے کہ مناسب آئینی ردعمل کا مقصد آرمی ایکٹ کی دفعات کو یکسر کالعدم کرنا نہیں، آرمی ایکٹ میں بنیادی ضابطہ موجود ہے مگر عام شہریوں کیلئے اپیل کے مناسب فورم کا فقدان ہے ، فوجی عدالتوں سے سزایافتہ شہریوں کیلئے ہائیکورٹس میں آزادانہ اپیل کیلئے قانون سازی کو پورا کیا جانا چاہیے۔

آزاد حق اپیل کی عدم موجودگی میں آرمی ایکٹ میں موجود ضابطہ کار عام شہریوں کیلئے آئینی طور پر مکمل نہیں،حق اپیل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قانون سازی سے مداخلت کی ضرورت ہے ،آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز آئینی طور پر بنیادی حقوق کے نظام سے باہر رکھے گئے ہیں،مگرملٹری ٹرائل میں بھی آرٹیکل 10 اے میں وضع معیار کی پاسداری ہونی چاہیے ،فیصلہ میں مزید کہا گیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم نہیں،آرٹیکل 175(3) فوجی عدالتوں کے وجودکی نفی نہیں کرتا،جبکہ پانچ رکنی بینچ نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی کی تھی،تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ کیس کے دوران اٹارنی جنرل نے کئی بار حق اپیل پر حکومتی ہدایات کیلئے وقت لیا، پانچ مئی کو آخری سماعت پر بھی اٹارنی جنرل نے ایسا ہی کہا، اٹارنی جنرل نے کہا عدالت ہدایت دے تو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو سکتی ہے ، اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی حکم کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔جبکہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 7 مئی کو انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کی تھیں۔سپریم کورٹ نے ملٹری ٹرائل کا پانچ ججز کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔اس کے علاوہ جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس نعیم افغان نے اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں ملٹری ٹرائل کی اجازت دے دی تھی۔