مفاداتیوں کے ہجوم میں مسلم لیگ ن کا نظریاتی متوالا

طالب حسین آرائیں/مسلم لیگ اور اس کے قائدین کے لیے مشکل وقت تو ان کے اپنے دور اقتدارسے ہی شروع ہوچکا تھا لیکن الیکشن 2018کے بعدان مشکلات میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔پارٹی گھٹن کاشکار ہوگئی باہر کی گھٹن تو تھی لیکن پارٹی کے اندر کی گھٹن بھی کچھ کم نہ تھی۔گوجرخان میں پارٹی کے اندر کی اس گھٹن سے مخلص کارکنوں کا دم گھٹنے لگا ہے۔دو واضح گروپوں میں بٹی مسلم لیگ کے رہنما اپنے اپنے تیئں پارٹی کی جڑوں میں بارود بھر کر بھی خود کو نظریاتی کہلوانے پر بضد ہیں۔حال یہ ہے کہ فضائیں قہر ہے اور ہوا میں زہر‘ہوا کاوہ زہر اور فضا کا وہ قہر ضمیر کی ہلاکت اور ذہن کی ہزیمت ہے ان نظریاتی لوگوں کی حکمت بھی ہوس ناکی ہے اور ہر دلیل دلالی‘لوکل قیادت نے بے وقوف بنانے کا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔اس سارے ماحول میں کارکنوں کے نظریات بھی دم توڑ چکے جو دو حصوں میں بٹ کر اپنے اپنے نظریاتیوں کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ گوجر خان مسلم لیگ میں عہدوں کی حالیہ جنگ نے تمام نظریاتیوں کو چوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔لیکن اس سارے ہجوم میں ایک شخصیت چوہدری جمیل احمد صاحب کی بھی ہے جو کسی گروپ کا حصہ نہیں لیکن پارٹی کے لیے مرمٹنے پر تیار ہیں جہاں دربارعام کی حضوری‘حاضری اور بدانجام حاضری نسل در نسل کے حافظے کا تمخسر بن چکی ہے وہاں چوہدری جمیل احمد نامی شخصیت نظریاتی مسلم لیگی رول ماڈل کے طور سیاسی افق پر موجود ہے۔میری چوہدری جمیل احمد سے کوئی ملاقات نہیں میں انہیں نہیں جانتا لیکن ان سے متعلق دستیاب معلومات سے اندازہ ہوا کہ یہ شخصیت پارٹی کاز سے مخلص ہے۔چوہدری جمیل احمد نے اپنی سیاست کا آغاززمانہ طالب عملی میں کیا جب آپ سرور شہید(نشان حیدر) گورئمنٹ کالج میں فرسٹ ائیر میں تھے تو آپ نے چند دوستوں کے ہمراہ ایم ایس ایف کی بنیاد رکھی۔اس وقت سے آج تک آپ پارٹی کے قوائد وضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں آپ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک نجات کا حصہ رہے اور گرفتار بھی ہوئے۔1999میں نواز شریف کی گرفتاری کے بعد بیگم کلثوم نواز مرحومہ کے شانہ بشانہ تحریک کا حصہ رہے جس کی پاداشت میں کئی دفعہ گرفتار ہوئے۔لیکن یہ نظریاتی شخص ثابت قدم رہا،جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے اسلام آباد پہنچنے کے اعلان پر یہ بھی مرکزی رہنماو¿ں کے ساتھ پولیس کا لاٹھی چارج اور آنسو گیس برداشت کرتے ہوئے دیگر کارکنوں کے ہمراہ ائیرپورٹ پہنچنے میں کامیاب رہے جہاں لاٹھی چارج کے دوران پولیس تشدد کا نشانہ بنے۔2017سے 2018 تک احتساب عدالت میں نواز شریف کی ہر پیشی پر چوہدری جمیل احمد کی حاضری بھی تاریخ کا حصہ ہے جس کی وجہ سے وہ مرکزی رہنماو¿ں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف اور کیپٹن صفدر اعوان کے ساتھ بھی بہت اچھی طرح متعارف ہوئے اس دوران انہوں نے دہشت گردی جیسے مقدمات کا سامنا بھی کیا۔میاں نواز شریف کو احتساب عدالت سے سزا ملنے کے بعدبھی یہ نوجوان اڈیالہ اور کوٹ لکھپت جیل میںپارٹی قائد سے ملنے جاتے رہے۔2018 میں بطور امیدوار صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 8 سےاپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تاہم پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے پر کسی مخالف جماعت کی مدد کرنے یا آزاد الیکشن لڑنے کی بجائے پارٹی فیصلے پر سرجھکایا اور پارٹی ٹکٹ ہولڈر کے لیے کام شروع کیا اور الیکشن کمپین چلائی۔کسی عزیز سے ان کا فون نمبر لے کر ان سے رابطہ کیا سوالوں کے جواب میں چوہدری جمیل احمد کا کہنا تھا کہ وہ آج بھی اپنی قیادت سے رابطے میں ہیں اور انشاءاللہ پی پی 8 سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر آمدہ الیکشن میں حصہ لوں گا۔قومی اسمبلی حلقہ NA-58 میں پارٹی کسی کے حق میں بھی فیصلہ کرتی ہے تو وہ ٹکٹ ہولڈر کے شانہ بشانہ چلیں گے کیونکہ میں کسی فرد کا نہیں پارٹی کا وفادار ہوں ان کا خیال ہے کہ وہ گوجرخان میں غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور اسی غیرجانبداری کی بنیاد پر وہ تمام مسلم لیگی کارکنان میں مقبول ہیں جو ٹکٹ ملنے پران کی جیت میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔مسلم لیگ میں گروپ بندی کے حوالے سے چوہدری جمیل کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن اختلاف کو دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے اور نہ ہی اختلاف پارٹی مفادات پر مقدم ہونا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گوجرخان کے تمام لیگی رہنماوں کو مل بیٹھ کر ایک روڈ میپ بنانا چاہیے۔ٹکٹ کے حصول تک ہر شخص اپنی اپنی کوشش کرے لیکن پارٹی جسے ٹکٹ جاری کرے تمام مسلم لیگی جی جان سے اس کے لیے کام کریں۔چوہدری جمیل کا خیال ہے کہ اس بار جس نے بھی پارٹی مفادات کے خلاف کام کیا اس کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی۔پارٹی مفادات کے حوالے سے جو سوچ چوہدری جمیل کی نظر آئی اگر گوجرخان کے تمام لیگی اس سوچ کو اپنا لیں تو الیکشن میں مخالفین کی ضمانیتں ضبط کروا سکتے ہیں۔لیکن مفاداتی سیاست کے اسیر اس سوچ کو پروان کیسے چڑھا سکتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں