مظلوم فلسطینی ریاست

14 مئی 1948 سے قبل لبنان شام اردن مصر اور بحر احمر کے درمیان جو علاقہ واقعہ تھا سارے کا سارا علاقہ فلسطین کہلاتا تھا فلسطین کا ایک شہر یروشلم خاص کر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تنازعہ کا باعث بنا ہوا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یروشلم شہر مسلمانوں یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس ترین شہر ہے مسلمانوں کے لیے قبلہ اول اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج کی رات یہاں پر انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت اور سفر معراج کی ابتداء کرنے کی وجہ سے مقدس و محترم مانا جاتا ہے عیسائیوں کے نزدیک یہاں پر ایک چرچ کنیسۃ القیامۃ ہے ان کے مطابق اسی چرچ میں (نعوذ باللہ) حضرت عیسی علیہ السلام کو مصلوب (پھانسی) کیا گیا اور ان کا مدفن بھی یہیں ہے یا ان کو آسمان پر اٹھا لیا گیا اس لئے مقدس ہے اور یہودیوں کے نزدیک یہی وہ مقام ہے جہاں سے دنیا کی ابتداء ہوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی قربانی یہیں پر پیش کی تھی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکلِ سلیمانی یہیں تعمیر کیا تھا اور اس کی باقیات میں سے ایک دیوار (دیوار گریہ) آج بھی باقی ہے1947 میں اقوام متحدہ نے اس علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ایک یہودی ریاست دوسرا مسلم یا فلسطینی ریاست اور تیسرا اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول یروشلم کا علاقہ اس تجویز کو یہودیوں نے قبول کرلیا اور چودہ مئی 1948 کو یہودی ریاست اسرائیل کی بنیاد رکھ دی اور آزادی کا اعلان کر دیا تمام ہمسایہ ممالک نے مل کر اسرائیل پر حملہ کر دیا اور اسرائیلی نہیں مجوزہ فلسطینی ریاست کے تمام علاقوں پر قبضہ کر کے فلسطینی ریاست کا نام و نشان مٹا دیا 5تا10جون انیس سو سڑسٹھ کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے وہ سارے علاقے شام اردن اور مصر سے چھین لیے بلکہ ان کے بھی کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا اور قدیم فلسطینی ریاست کے تمام رقبہ پر قابض ہو گیا 15 نومبر 1988 کو تنظیم آزادی فلسطین اور فلسطین کی قومی کونسل نے آزادی کا اعلان کر دیا1988 سے 1993 کے درمیان مسلسل پانچ سال اسرائیل اور پی ایل او (یاسرعرفات) کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے بالآخر 1993 میں معاہدہ اوسلو ہوا جس کے مطابق نمبر 1- فلسطینی مزاحمت کی راہ کو ترک کردیں گے نمبر2- 1967 میں جن علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا تھا وہاں کا کنٹرول فلسطینیوں کے سپرد کر دیا جائے گا اور فلسطینی خود اس علاقے کا نظم و نسق چلائیں گے نمبر3 -مہاجرین کی واپسی ہوگی نمبر 4 – یہودی بستیوں کی تعمیر روک دی جائے گی اس طرح کچھ علاقوں کو فلسطینیوں کے سپرد کر دیا گیا 4 مئی1994 کو فلسطین نیشنل اتھارٹی نے غزہ اور مغربی کنارے کا انتظام سنبھال لیا جس کے پہلے سربراہ یاسرعرفات تھے 3 ستمبر 2012 کو اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دی گئی 29 نومبر 2012 کو غیر ممبر مبصر ریاست کا درجہ دے دیا گیا (ووٹ کا حق نہیں دیا گیا) 131 سے زائد ممالک نے اس کو تسلیم کیا ہوا ہے اس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم اور رام اللہ ہے یہ ریاست دو متفرق علاقوں پر قائم ہے جن کے درمیان تقریبا 60 کلو میٹر کا فاصلہ (دوری) ہے (جیسے ہمارا ملک پاکستان1971سے پہلے دو حصوں موجودہ بنگلہ دیش اور موجودہ پاکستان پر مشتمل تھا فرق صرف اتنا ہے کہ ان دو کے درمیان سمندر حائل تھا جبکہ ان کے درمیان ان کی دشمن ریاست اسرائیل ہے) ایک غزہ یا غزہ کی پٹی اور دوسرا مغربی کنارہ یا ویسٹ بینک ہے غزہ اس کی سرحد جنوب مغرب میں گیارہ کلو میٹر مصر کے ساتھ جبکہ 51 کلو میٹر اسرائیل کے ساتھ لگتی ہے اس کا کل رقبہ 365 مربع کلومیٹر ہے اس کی آبادی تقریبا 20 لاکھ سے زائد ہے یہ دنیا کے گنجان ترین آباد علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان حالات میں یہ رہائش کے قابل نہیں ہے یہ علاقہ 1948 سے لے کر1967 تک مصر کے زیر تسلط رہا 1967 میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور 1993 تک اسرائیل کے زیر تسلط رہا 1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد 1994 سے اس کا نظم و نسق فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا جبکہ اسرائیلی فوج 2005 تک یہیں رہی مصر نے بھی اس کی سرحد مکمل بند کی ہوئی ہے سمندری حدود اور باقی دو اطراف کی سرحد کو اسرائیل نے مکمل بند کیا ہوا ہے کسی کو باہر جانے کی اجازت نہیں ہے سواے انتہائی پیچیدہ بیماری کی حالت میں مغربی کنارے علاج کے لیے جا سکتے ہیں اس کے علاوہ یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ اور صورت نہیں ہے یعنی فلسطینی محصور ہو کر زندگی گزار رہے ہیں یہ پانچ انتظامی یونٹس (اضلاع)۔شمالی غزہ،غزہ، خان یونس، دیرالبلح، رفح پر مشتمل ہے مغربی کنارہ اس کے مشرق میں اردن ہے اور باقی تینوں اطراف میں اسرائیل نے گھرا ہوا ہے اس کا کل رقبہ 5860 مربع کلومیٹر ہے اس کی آبادی تقریبا 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے اس کا دارالحکومت اسی حصہ میں ہے یہ دس انتظامی یونٹس (اضلاع) یروشلم، الخلیل، بیت اللحم، رام اللہ،طولکرم، جنین(مغربی کنارہ)،اریحا، نابلس، قلقیلیہ،اور طوباس پر مشتمل ہے اس کا شہر الخلیل غزہ کے سب سے زیادہ قریب ہے ان کے درمیان 60 کلو میٹر کا فاصلہ ہے جبکہ یروشلم سے غزہ تقریباً 79 کلومیٹر دور ہے اس وقت تقریباً 75 لاکھ فلسطینی مہاجرین ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پزیر ہیں تقریبا 10لاکھ فلسطینیوں کو اسرائیل گرفتار کر کے سزائیں دے چکا ہے اور اڑھائی لاکھ کے قریب اپنی آزادی کی قیمت ادا کر چکے ہیں اللہ تعالیٰ ٰہمیں ان کی مدد کی توفیق دے اور قبلہ اول کو آزاد کرانے کی ہمت!آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں