یوں تو ہر بچہ ہی ماں باپ کا لاڈلا ہوتا لیکن کچھ بچے پیدا ہی اس لئے ہوتے کہ ان سے پیار کیا جائے، ان کی آنکھوں کو چوما چائے، وہ خود پیار کرتے ہیں اور پیار مانگتے ہیں ان بچوں میں سے ایک جنید احمد تھا، جنید احمد یکم اپریل 1996 کھینگر کلاں یوسی جھٹہ ہتھیال تحصیل راولپنڈی شفیق احمد کے گھر پیدا ہوا، جنید احمد کی پیدائش سے پہلے اسکے گھر اس کی بڑی ایک بہن تھی جو اب شادی شدہ ہے اور اس کا ایک چھوٹا بھائی فیضان احمد ہے جو پرائیویٹ جاب کررہا ہے، ہر بچہ ماں باپ کو خوبصورت لگتا ہے لیکن جنید احمد کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی خوبصورت بنایا تھا وہ پیدائش کے بعد ماں باپ بڑی بہن، اور اپنے خاندان خاص کر کے ہمارے اپنے ماموں قاسم مجید کی آنکھوں کا تارا تھا بچہ جب پیدا ہوتا ہے ماں تکلیف کی وجہ سے دیکھ نہیں پاتی، لیکن وہ اپنے بچے کے حوالے سے مستقبل کے خوبصورت خواب دیکھ رہی ہوتی ہے،حالانکہ ماں تو اس وقت شدید تکلیف میں ہوتی ہے، باپ نے ابھی بچے کو نہیں دیکھا، باہر کھڑا ہے، جب اس کو بتایا جاتا کہ آپ کو مبارک ہو آپ ایک بیٹے کے باپ بن گئے ہیں
، اس کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے، پھر مستقبل کے سہانے خواب دیکھتا ہے، وہ بچے کو اٹھائے گا، اس کا ماتھا چومے گا، اس کو سکول لیکر جائے گا، اس کے لئے خوبصورت خوبصورت کھلونے لیکر آئے گا، پھر میرا بچہ سکول کی منزلیں طے کرتا ہوا، کالج جائے گا، پھر یونیورسٹی جائے، پھر میرا بچہ ایک دن اچھی جاب تک پہنچ جائے گا، پھر ہم دونوں میاں بیوی اس کے لئے خوبصورت سی دولہن اس کے لئے پسند کریں گے، پھر اس کے بچے ہوں گے پھر ہم دونوں میاں بیوی اپنے پوتوں اور پوتیوں سے کھیلا کریں، ابھی بچے کو نہ ماں نے دیکھا اورنہ باپ نے دیکھا‘ دونوں اگلے تیس سال کے خواب دیکھ رہیں ہیں، پھر جب ماں کی گود میں رکھا جاتا ہے تو ماں نو مہینے کی تکلیف بھول جاتی ہے
، بچے کی پیدائش وقت پہنچنے والی ساری تکلیف بھول جاتی ہے، جب بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ لگایا جاتا ہے، ماں ساری تکلیف بھول کرکے مسکرا اٹھتی ہے، اس کے چہرے پر تبسم ہے، اس کے دل ودماغ میں مستقبل کے سہانے خواب ہوتے ہیں، پھر جب بچہ باپ کی گود میں جاتا ہے، اس کے دل ودماغ میں امید کے چراخ روشن ہوجاتے ہیں، پھر جب دونوں میاں بیوی اگھٹے ہوتے ہیں وہ بچہ ان کی گود میں ہوتا ہے وہ دونوں اپنی خوشیوں ایک دوسرے کے شیئر کرتے ہیں، ماں اپنے مستقبل کے سہانے خواب اپنے محبوب خاوند سے شیئر کرتی ہے اور باپ اپنے خواب اپنی شریک حیات سے شیئر کرتا کہ ہم دونوں اس بچے اس طرح پالیں گے، یہ دونوں کے خواب، امیدوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں، اب دونوں کی امیدوں کا مرکز ان کا بچہ ہے، ماں کو اپنے کھانے پینے اور خوبصورت کپڑے پہننے کی فکر ختم ہوجاتی ہے، اور باپ کو اپنے آرام وسکون کی فکر نہیں رہتی، وہ اپنی شریک حیات کو مطمئن دیکھنا چاہتا ہے اور اپنے بچے کے لئے جو خواب دونوں میاں بیوی نے دیکھے ہے ان میں رنگ بھرنے کے لئے اپنی زندگی کو لگا دیتے ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ بچہ ماں باپ کی امیدوں کا مرکز بنتا جاتا ہے، ماں کی عمر بڑھتی جاتی ہے، باپ کی عمر بڑھتی جاتی ہے، مشقت سے اس کا جسم کمزور ہورہا ہے لیکن وہ دونوں اپنے بچے کو دیکھ کر، اپنے مستقبل کے سہانے خواب میں کھو جاتے ہیں، وہ اپنے آپ کو جوان محسوس کرنے لگ جاتے ہیں، اب اللہ کے فیصلے ہیں کچھ والدین کو منزل مل جاتی ہے، وہ سارے خواب ایک ایک کرکے ان کے حقیقت بن کر ان کے سامنے آجاتے ہیں
اور کچھ والدین کو آزمائش سے گزرنا پڑتا، اللہ آزمائشوں سے محفوظ فرمائے،ہر وقت اللہ سے دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی آزمائشوں سے محفوظ فرمائے، ہمیں اولاد کی طرف سے کسی آزمائش میں مبتلا نہ کرے، ہمیں اپنی اولاد اور اولاد کی اولادوں کی خوشیاں نصیب فرمائے، جنید احمد اپنی ماں باپ کا لاڈلا، اپنی بڑی بہن کا لاڈلا، خاندان کا لاڈلا، ماموں قاسم مجید کا لاڈلا، ہم سب کا لاڈلا تھا، ماں باپ کی امیدوں کا مرکز تھا، اس نے میٹرک کا امتحان 2012 گورنمنٹ ہائی سکول جھٹہ ہتھیال راولپنڈی بورڈ سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا اس کے بعد انٹرمیڈیٹ کا امتحان فیڈرل بورڈ سے پاس کیا اور گریجویشن علامہ اقبال یونیورسٹی سے 2017 کی، اس کے ساتھ ساتھ سیفٹی انسپکٹر کا کورس پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے پاس کیا، وہ نہایت ہی محنتی اور ذہین بچہ تھا، شروع سے نماز کا پابند تھا، اس نے سرکاری جاب کے لئے مختلف جگہوں پر اپلائی کیا لیکن سرکاری جاب نہ ملی اس کے بعد اس نے پرائیویٹ کمپنی Deep Weel میں بطور اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ کام شروع کردیا اس کمپنی میں اس کے والد بھی جاب کرتے ہیں وہ روزانہ گھر سے موثر سائیکل پر گھر راولپنڈی جاتا تھا، یہ کمپنی سابق ممبر صوبائی اسمبلی محترم جناب شہر یار ریاض کی ہے، جنید احمد ان کے گھر کے ایک فرد کی طرح تھا ان کے گھر کا ہر فرد گواہی دیتا ہے وہ بہت ہی شریف النفس اور دیندار تھا، اب ماں باپ کو اس کے دولہا بنانے کی فکر لاحق تھی، اس کی امی جی اس کے سر پر سہرا سجانا چاہتی تھی، لیکن قدرت کچھ اور فیصلے کر چکی تھی
، 27 فروری 2025 جمعرات والے دن ڈیوٹی آف کرکے گھر کے نکلا، اس کی امی نے فون کیا کہ جنید موسم ٹھیک نہیں تم ابو جی کہ پاس وہاں رک جاؤ، گھر نہ آؤ اس نے امی کو جواب دیا کل جمعہ ہے، میں نے کل جمعہ کے گھر سے کپڑے تبدیل کرنے ہیں پھر اس کے ابو جی نے کہا جنید میرے پاس رک جاؤ موسم ٹھیک نہیں اس نے ابو جی کو یہ ہی بات کہی کہ جمعہ ہے میں نے گھر سے کپڑے تبدیل کرنے ہیں، اللہ تعالیٰ فیصلہ کرچکا تھا کہ اس نے کون سے کپڑے تبدیل کرنے ہیں، وہ راولپنڈی سے پبلک ٹرانسپورٹ سے نکلا، روات سے اپنے ساتھ والے گاؤں کھنیگر خورد کا جنید اپنی مہران گاڑی پر گھر آرہا تھا اس نے جنید کو کہا آپ ساتھ چلیں، وہ دونوں جنید، دونوں کے والد کا نام شفیق ہے، دونوں ہم عمر ہیں ان کے ساتھ کھنیگر خورد کی ہماری دو بیٹیاں جو دونوں دیورانی جیٹھانی تھیں وہ بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی چاروں تیزی سے اپنی منزل کی طرف جارہے تھے، جنید احمد کی امی نے فون کیا کہ جنید احمد کس وقت پہنچو گئے، اس نے امی کو جواب دیا امی پندرہ سے بیس منٹ بعد پہنچ جاؤں گا، لیکن قدرت کوئی اور فیصلہ کر چکی تھی ٹھیک رات کے 8.40 پر تیز رفتار مہران گاڑی جاوا موڑ کے سامنے دوسری طرف سے آنے والے ڈیمپر سے ٹکرائی، اور چاروں اسی جگہ اللہ کو پیارے ہوگئے، مقامی افراد نے 1122 کو فون کیا وہ موقع پر پہنچ گئے لیکن ہمارے دونوں جنید اور دونوں ہماری بیٹیاں اللہ کے پاس پہنچ چکی تھیں، ادھر جنید احمد کی امی جی انتظار کررہی تھی
، پھر گھر پر کالی آتی کہ جنید کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو سامنے جنید احمد ابدی نیند سو رہا تھا مجھے قاسم بھائی نے میسج کیا کہ مرزا صاحب جنید احمد اللہ کو پیارا ہوگیا ذہن نہیں مان رہا تھا لیکن اللہ کا فیصلہ اٹل تھا صبح جب اس کے گھر پہنچا میرے ساتھ قاضی سلیم اصغر صاحب تھے ہم قاسم بھائی کے ساتھ سیدھے چارپائی پر گئے تو جنید احمد گہری نیند سو رہا تھا، پاس اس کی امی جی کھڑی تھیں اس کے 29 سال کے خواب بکھر چکے تھے لیکن اللہ کے فیصلے اٹل ہیں، آج جمعہ کا دن تھا پھر جمعہ کہ نماز سے پہلے اس کو غسل دیا گیا اور کپڑے تبدیل کئے گئے لیکن ان کپڑوں کا رنگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ رنگ سفید تھا، جمعہ کی نماز سے پہلے اس کو غسل دے کر سفید رنگ کی دو چادروں میں لپیٹ دیا تین بجے اس کا جنازہ ادا کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کی امانت اللہ کے حوالے کردی گی، اس کے دوست بہت دکھی اور افسردہ ہیں اور اس کی زندگی کی گواہی دیتے ہیں وہ ایک شریف النفس نوجوان تھا،اس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنے کلام قرآن مجید میں اہل ایمان کے خوشخبری دی ہے، جو جنید احمد کے ابو امی، بہن اور خاندان کے لیئے بھی ہے اور ہم سب کے لیے بھی خوشخبری ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ترجمہ، ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات، اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے،ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں، کہ ہم اللہ ہی کہ ہیں، اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوشخبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں، البقرہ، آیات نمبر 155،156?157اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ جنید احمد کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور اس کے والدین، اس کے اکلوتے بھائی فیضان احمد اور بہن اور خاندان کے پیاروں کو صبر و جمیل عطا فرمائے آمین